اللہ خیر کرے

اللہ خیر کرے

 تاریخ اپنے آپ کو کہیں اور دہرائے نہ دہرائے، پیارے وطن میں دہرانے سے نہیں چوکتی ، یہی وجہ ہے کہ پون صدی سے ہمارے حالات ایک دائرے کے سفر میں ہیں،مسافت میں ہیں مگر منزل وہی نقطہ آغاز، جہاں سے چلے تھے وہیں کھڑے ہیں،حالیہ دنوں میں وطن عزیز کے سیاسی منظر نامے کا مشاہدہ کیا جائے تو چند چیزیں حیران کن حد تک مماثل ہیں، یوں لگتا ہے جیسے اس کہانی کے سکرپٹ رائٹر کو محض کردار تبدیل کرنے پڑتے ہیں کہانی وہی رہتی ہے،اس مرتبہ مگر سوال یہ ہے کہ سکرپٹ کہیں لکھا بھی گیا کہ سیاستدانوں نے اپنے ابالی پن اوراقتدار کی ہوس میں معاملات حسب روایت پارلیمان سے اٹھا کر سپریم کورٹ میں پھینک دئیے اور اسٹیبلشمنٹ کو باقاعدہ مداخلت کی دعوت دی جا رہی ہے۔یہ صورتحال غماز ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کے نزدیک جمہوریت ، پارلیمنٹ ، سیاسی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں،عوام کی تو کسی کو کوئی پروا نہیں،عوام دیرینہ اور تازہ مسائل کی دلدل میں گردن تک دھنس چکے ہیں،جمہوریت نوحہ کناں ہے،مگر سب کو فکر اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کی ہے،اس کشمکش میں ریاستی ، انتظامی اورعوامی امور کی انجام دہی کا فریضہ پھر اسی بیوروکریسی کے کندھوں پر آن پڑا جو گزشتہ ایک دہائی سے نیب،ایف آئی اے،اینٹی کرپشن ، تبادلوں ، انکوائریوں کی ننگی تلوار پر چل رہی ہے ، موجود حالات میں جیسے عوام بے سرو ساماں ہیں ایسے ہی بیوروکریسی اور سرکاری عمال بے آسرا و بے یارو مددگار ہیں،انکو نہیں معلوم معاملات تحریک انصاف حکومت کی پالیسیوں کے مطابق چلانا ہیں یا اپوزیشن لیڈرز جو احکامات صادر کر رہے ہیں ان کی اطاعت کرنا ہے،اس تناظر میں ریاست بھی آج بغیر قیادت کے بے سروسامانی سے دوچار ہے۔
 2018 کے الیکشن میں عوام نے ایک امید اور یقین کیساتھ کپتان کا ساتھ دیا تھا،نئے پاکستان کی امید میں پرانے پاکستان کی قربانی کا عزم کیا مگر یہاں توگنگاہی الٹی بہہ نکلی،اس دور میں صرف حکومت ہی نہیں ماشااللہ اپوزیشن بھی مقابلے پر نالائقی کے ثبوت فراہم کرنے پر تلی رہی اپوزیشن نے مکمل طور پر ذاتی نوعیت کی سیاست کرتے ہوئے اپوزیشن کے کردار کا وہ خلا پیدا کیا جس سے عوام حکومتی نااہلی، مہنگائی اور بری طرز حکومت تلے دب کر فنا ہو گئی اور اپوزیشن میں کہیں ذاتی نوعیت کی شاہی کھینچا تانی چلتی رہی اور کہیں اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ’’ایسی دلہن‘‘ کی تیاری جو ’’پیا من‘‘ بھا جائے، عوام کی یہ حسرت رہی کہ ان 75 سالوں میں کبھی عملی طور پر وہ بھی ’’پیا‘‘ بن سکتے ، بہرحال ایسی ہزاروں خواہشوں کی قبروں پر حسرتوں کے کتبے ہی پاکستان کی تاریخ ہیں۔یہاں مؤرخ نے تاریخ نہیں لکھی کتبے لکھے،مختلف مواقع پر اپنے بندے پورے نہ کر پانے والی اپوزیشن ’’سٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو گئی ہے‘‘ کے معنی خیز بیانئے کے ساتھ عمران خان حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی ، اس تحریک کو ڈپٹی سپیکر نے مستردکر دیا،وزیر اعظم نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز دیدی،عدم اعتماد تحریک میں اگر عوام کی کو ئی بھلائی نہ تھی تو اسمبلیوں کی تحلیل سے بھی عوامی مسائل حل ہونیوالے نہ تھے،سیاست اور مذہب کے آمیزے میں گندھی منافرت پھیلانے کا آغازبھی اسی دور میں ہوامیلسی جلسہ میں وزیراعظم نے خود کو قوم کا باپ کہا اور پھر جلسے میںآئی ہوئی قوم کے بچوں سے فضلو کہہ کر ڈیزل کے نعرے لگوائے اور پھر کہا جنرل باجوہ نے منع کیا تھا لیکن میں کیا کروں لوگ ایسا کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ عدم اعتماد تو ایک آئینی معاملہ تھا اس کے لیے اتنی مار دھاڑ اور ہنگامہ آرائی کیوں ؟ اگر یہ واقعی جمہوریت کے کسی آخری درجے پر براجمان نظام میں بھی ہوتا تو نہ وزیراعظم عمران خان یہ کہتے کہ عدم اعتماد کے بعد سارے چور ڈاکو میرے نشانے پر ہوں گے اور نہ اپوزیشن میں بھی فضل الرحمان صاحب جو اقتدار سے باہر ماہی بے آب ہوتے ہیں وہ دھمکی دیتے کہ اگر عدم اعتماد ناکام ہوئی تو معاملات گلی کوچوں تک جائیں گے اور ملک انارکی کی طرف بڑھے گا۔
 غور کیا جائے تو پچھلی ایک دہائی میں سکرپٹ ایک ہی ہے، سکرپٹ رائٹر بھی، بیانات بھی، دھمکیاں بھی، بس کردار بدل رہے ہیں،عمران خان نے دھرنا دیا تھا تو وہ ملک کو بند کرنے کی بڑھکیں مارتے تھے اور ان کے ساتھ موجود شیخ رشید جلا دو مٹا دو مار دو کی باتیں کرتے تھے اور اس وقت کے حکمران اورآج کی اپوزیشن حکمرانی کو تا ابد سمجھتے ہوئے جواباً ریاستی طاقت استعمال کرنے کی باتیں کرتے تھے ،، خواجہ سعد رفیق کی طاہر القادری کے خلاف اشتعال انگیز تقریر اور پنجاب حکومت کا ماڈل ٹاؤن آپریشن ہماری سیاسی تاریخ کے چہرے پر ایک سیاہ داغ ہیں،آج دیکھا جائے تو کہانی ہو بہو وہی معلوم ہوتی ہے صرف کرداروں کا آپس میں تبادلہ ہوا ہے حکومت اپوزیشن بن چکی اور اپوزیشن والے حکمران بنے بیٹھے ہیں عوام اس سارے کھیل یا سکرپٹ میں کہیں دکھائی نہیں دیتے،ملک کی کشتی آج اگر گرداب میں ہے تو عوام بھنور میں،اس صورتحال کی واحد وجہ یہ ہے کہ سکرپٹ عوام کے ہاتھ سے کبھی نہیں لکھا جاتا، اگر یہ نام نہاد جمہوریت واقعی سلطانی جمہور ہوتی تو مقتدرہ کے بجائے عوامی نمائندے عوام کو جوابدہی کے خوف یا فرض کے زیر اثر اپنی سیاسی حکمت عملی ترتیب دیتے، لیکن دکھی دل سے کہنا پڑتا ہے 75 سال سے وہی دائروں کا سفر جاری ہے ہمارے ہاں سیاستدانوں کو سکرپٹ پکڑا دیا جاتا ہے اور وہ مستقبل میں حکمرانی کے اجر کی قیمت پر اپنا اپنا کردار بڑھکوں دھمکیوں اور افراتفری پھیلا کر نبھانے لگتیہیں۔ اس سفاک اور سنگدل کاروباری نظام ریاست و سیاست کی چکی کے دو پاٹوں میں حکومت اور اپوزیشن میں پسنا عوام کو ہی پڑتا ہے جس کو پیس کر اونچے اونچے ایوانوں میں اقتدار کے دسترخوانوں میں چن دیا جاتا ہے۔
 حکومت اور اپوزیشن کے پاس معاملات کو خوش اسلوبی سے سدھارنے کے متعدد مواقع تھے ،مگر اصلاح کی طرف کسی نے قدم نہ بڑھائے ،کشمکش ، کشا کش،نفرت،افراتفری پھیلانیکی طرف سب کا دھیان رہا،سچ یہ کہ دونوں کی نگاہیں اسٹیبلشمنت کی طرف اٹھی ہوئی تھیں کہ وہ آگے بڑھے اوراس کے حق حکمرانی پر صاد کرے،مگر اسٹیبلشمنٹ تو سیلیکٹڈ کی گردان سے ہی پیچھا نہیں چھڑا پائی،یہاں کون ہے جوسلیکٹڈ نہیں رہا،نواز شریف بھی ضیاء الحق کی سلیکشن تھے،گاہے گاہے یہ الزامات عائد کر کے سیاستدانوں نے نہ صرف اپنی بے توقیری کی بلکہ ووٹ کی حرمت بھی پامال کی،چودھری پرویز الٰہی کو اگر اپوزیشن یا حکومت بر وقت وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد کر دیتے تو وہ اس ابتر صورتحال کو خوش اسلوبی سے ہینڈل کر سکتے تھے،مگر دونوں نے انکو بھی مذاق بنا دیا،نتیجے میں آج خود تماشا بنے بیٹھے ہیں،وفاقی اور صوبائی بیوروکریسی اور سرکاری عمال تو اس صورتحال میں عجیب و غریب صورتحال سے دوچار ہے،کس کی مانے اور کس کی نہ مانے،کیا کرے اور کیا نہ کرے،ا س کشمکش میں سرکاری مشینری عملی طور پر عضو معطل ہے،بس اب تو شائد یہی کہنا مناسب ہو گا کہ’’اللہ کریم خیر کرے‘‘۔

مصنف کے بارے میں