کراچی کی فضاؤں سے… سفر وسیلۂ ظفر

کراچی کی فضاؤں سے… سفر وسیلۂ ظفر

اگر آپ کے ساتھ کوئی خوشگوار معاملہ پیش آئے تو اس پر خوشی منانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ سفر پر نکل جائیں اور اگر کوئی ناخوشگوار معاملہ پیش آجائے تو اس کو فراموش کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ آپ ایک بار پھر سفر پر نکل جائیں اور ان دونوں صورتوں کے برعکس اگر آپ کے ساتھ سرے سے کوئی واقعہ پیش ہی نہ آ رہا ہو تو سفر بہت ضروری ہے تا کہ آپ کے ساتھ کسی بھی نوعیت کی کوئی پیشرفت تو ہو۔ یہ ایک طویل انگریزی محاورہ ہے جسے اردو میں ایک سطر میں یوں بیان کر سکتے ہیں کہ سفر وسیلۂ ظفر ہے۔ ہمارا شمار بھی پاکستانیوں کے اس قبیلے سے ہے جو سفر پر تو صبح شام نکلتے ہیں مگر پہنچتے کہیں نہیں کیونکہ ان کا یہ سفر دائرے میں ہوتا ہے گھر سے دفتر تک کا سفر اور پھر واپسی۔ اسی طرح روٹی کی خاطر ہر بندی اپنے اپنے حالات میں محو سفر بلکہ محو پرواز ہے۔ دائرے میں بٹا ہوا یہ سفر درحقیقت روٹی کی شکل کا ایک دائرہ ہے جس کا غربت کی لکیر سے بڑا گہرا تعلق ہے ہم نے خطر غربت کا ذکر سنا ہے جسے ماہرین Bread Line یا روٹی کی لکیر کہتے ہیں اگر روٹی کی لکیر ہو سکتی ہے تو ان لکیروں کا مجموعہ جیومیٹری کی زبان میں روٹی کا دائرہ ہی کہلائے گا۔ 
ہوائی جہاز پر سات سمندر پار کا سفر ہم نے بھی بے شمار دفعہ کیا ہے جب آتش جواں تھا عہد شباب میں تو گدھا گاڑی کا سفر بھی کسی Roller Coaster کی سواری سے کم نہیں ہوتا مگر سیرین ایئر کے حالیہ سفر نے تو ہوائی سفر سے وابستہ ہمارے اس فکری ورثے کو خاصا مجروح کیا ہے جو ماضی میں ہمارے لیے کسی پریوں کی کہانی سے کم نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت یہ روش چل رہی ہے کہ ہر خرابی کا ذمہ دار کرونا کو ٹھہرا کر بری ہونے کا رواج عام ہے اس حربے کو حکومتیں بڑی مہارت کے ساتھ استعمال کرتی ہیں لہٰذا سیرین ایئر نے ہمارے ساتھ جو کیا ہے یقینا اس کے پیچھے بھی کرونا ہے۔ 
لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر جب جہاز میں سوار ہوئے تو دو فضائی میزبانوں نے ہمارا استقبال کیا۔ جہاز کے عملہ میں ہمیں پائلٹ اور معاون پائلٹ کا نام و نشان نظر نہیں آیا ۔ ایک لمحے کے لیے ہمیں خیال آیا کہ کرونا کے پیش نظر کہیں پائلٹ Working From Home تو نہیں کیونکہ یہ آن لائن ڈیوٹیوں کا دور ہے اس پر ہم نے ایک دفعہ پھر خشوع و خضوع کے ساتھ کلمہ طیبہ کا ذکر شروع کر دیا۔ اس سفر میں ہمارے ساتھ ہماری بیگم بھی تھی وہ بار بار گزشتہ سال ہونے والے ایئر بلیو کے حادثے کا ذکر کر کے ہمیں مزید خوفزدہ کر رہی تھیں بیگم کو یہ اطمینان تھا کہ اگر کچھ ہو گیا تو اس سفر میں وہ اکیلی نہیں تھیں لہٰذا انہیں یہ فکر نہیں تھی کہ ان کے بعد کیا ہو گا۔ 
ہمارے ذہن میں گلف ایئر کی انگلش فضائی میزبانوں کی پرانی یادیں تیر رہی تھیں جس میں وہ ایک دفعہ بات شروع  کرنے سے پہلے مسکراہٹ کا بھرپور اظہار کرتی تھیں ۔ ایک دفعہ گفتگو کے درمیان میں اور پھر بات کے آخر میں ہماری چشم تصور میں ماضی کے وہ سارے واقعات گردش کرنے لگے کہ ایئر ہوسٹس کس طرح کرسی کی پشت کو سیدھا کرنے اور سیٹ بیلٹ باندھنے میں مسافروں کی مدد کر رہی ہوتی تھیں پھر کس طرح کھانے کی میز کو آپ کے سامنے Unfold کرتی تھی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن سیرین ایئر کا معاملہ مختلف تھا اس کی ایک وجہ تو شاید یہ تھی کہ یہ 20 سال پرانا سفر نہیں تھا، دوسرا یہ ڈومیسٹک فلائٹ تھی اور تیسرا یہ کہ ایئر ہوسٹسیں غیر ملکی نہیں بلکہ پاکستانی تھیں جو مزاج کے لحاظ سے ’’پراں مر جا کے‘‘ ٹائپ کی تھی۔ بہرحال ہم نے بھی سوچ رکھا تھا کہ ایک گھنٹہ 35 منٹ کی تو بات ہے چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ۔ 
ہماری پرواز کا وقت عین ڈنرٹائم کے وقت رکھا گیا تھا اور ہوائی سفر کی خوشی کی وجہ سے ہمیں بھوک پہلے سے زیادہ لگ چکی تھی جیسے ہی طیارہ لاہور کی فضاؤں میں بلند ہوا ہم نے کھانے کا انتظار شروع کر دیا مگر یہ جان کر دل ٹوٹے ٹوٹے ہو گیا کہ کرونا کی وجہ سے ان فلائٹ کیٹرنگ بند کر دی گئی ہے انسانی حقوق کی اس شدید خلاف ورزی پر ہم احتجاج بھی نہ کر سکے بات ہی ایسی تھی۔ کرونا اب ہمارے ہاں وسیع ترقومی مفاد کا وہ درجہ حاصل کر چکا ہے کہ اس بنا پر حکومت آپ کے ساتھ جو چاہے کر لے۔ آپ بول نہیں سکتے۔ سیرین ایئر نے حکومتی مائنڈ سیٹ کا فائدہ اٹھایا اور کھانے کے پیسے بچا لیے۔ بات یہاں تک ہی رہتی تو ہم سہہ جاتے مگر سیرین ایئر نے Adding insult of The injury کی حد کر دی۔ پانی کی ایک ایک چھوٹی بوتل ہر مسافر کی سیٹ پر بیٹھنے سے پہلے ہی رکھ دی گئی تھی۔ دوسرے مرحلے میں ایئر ہوسٹسیں ایک چھوٹی ٹرے لے کر نمودار ہوئی جس میں بے بی سائز کی ایک ٹافی بے رنگ پلاسٹک کے کاغذ میں لپٹی ہوئی تھی۔ ہر مسافر اپنے حصے کی ایک ٹافی اٹھا رہا تھا چنانچہ ہم نے بھی وہی کیا جو وہاں سب کر رہے تھے۔ یہ ٹافی جس سے چھوٹے بچے کو بہلانا بھی ممکن نہ تھا یہ ہمارے ڈنر کی Replacement تھی کیونکہ اب تو بچے بھی شوگر ٹافی کے بجائے چاکلیٹ مانگتے ہیں۔ 
اس موقع پر ہم یہ سوچنے میں حق بجانب تھے کہ جب کھانے کا وجود ہی نہیں تو پھر ایئر لائن کو چاہیے تھا کہ فضائی میزبانوں کی بھی چھٹی کرا دیتی انہیں خواہ مخواہ زحمت دے رکھی تھی۔ لفظ میزبان کا کھانے کے بغیر وہی مطلب ہے جیسے کوئی کہے کہ وہ دودھ کے بغیر کھیر پکا سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں یہ نارمل ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہر نئی آنے والے حکومت پہلا بیان یہ دیتی ہے کہ خزانہ خالی ہے اور دوسرا کام یہ کرتی ہے کہ ملک کا وزیر خزانہ پھر بھی مقرر کر دیا جاتا ہے۔ یہی حکومتی چالاکی ہمارے ساتھ سیرین ایئر نے کر ڈالی کہ بغیر کھانے کے ایئر ہوسٹسیں تعینا ت کر دیں جو مسافروں میں ٹافیاں بانٹنے بلکہ ٹافیاں پھینکنے کا ٹاسک سر انجام دے رہی ہیں۔ 
دوران سفر ہم نے اپنی جیب سے جب دوسری ٹافی نکالی تو بیگم نے معنی خیز نظروں سے پہلے ہمیں دیکھا اور پھر ایئر ہوسٹس کو جو کاریڈور سے بھاگنے کے انداز میں گزر رہی تھی ویسے پتہ نہیں کہ فضائی میزبانوں کو اتنی جلدی کس بات کی ہوتی ہے۔ ہم نے بیگم کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ہم نے میزبانوں کی نظر بچا کر ٹرے سے ایک کے بجائے دو ٹافیاں اٹھالی تھیں  مگر انہیں اس میں شک ہے دوسرا وہ کہتی ہیں کہ میرا مؤقف اگر درست مان بھی لیا جائے تو پھر یہ کرپشن کے زمرے میں آتا ہے ۔ ہمیں مرحوم مشتاق یوسفی صاحب بہت یاد آ رہے ہیں وہ کہتے تھے کہ اگر آپ فیملی کے ساتھ بنکاک جانا چاہتے ہیں تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی بندہ مری کی سیر کو نکلے اور برف گھر سے ساتھ لے جائے۔ 
اب ہم کراچی میں بیٹھے یہ سوچ رہے ہیں کہ واپسی کے لیے دو کام کیے جائیں ۔ ایک تو بیگم کو کسی اور فلائٹ سے واپسی کا ٹکٹ دلایا جائے اور دوسرا سیرین ایئر کے بجائے واپسی کا سفر قومی ایئر لائن سے کیا جائے۔ اسی اثنا میں سول ایوی ایشن اتھارٹی نے فضائی کمپنیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ پروازوں میں Packed کھانے کا انتظام کریں۔ یہ بات ہمارے لیے مزید اذیت کا باعث بن رہی ہے کہ ’’ہن کیہ فیدہ ‘‘۔