آزادی اظہاررائے کے مسافر

 آزادی اظہاررائے کے مسافر

بولنے کا حق بھی عجیب ہے جو ہمیشہ طاقتور کے پاس ہوتا ہے۔ ہزاروں سال پہلے سقراط نے حق بات کہنے کے جرم کا اعتراف کیا اور اسی جرم کی پاداش میں زہر کا پیالہ پیا، چادر منہ پر اوڑھ کر ابدی نیند کی وادیوں میں جا اترا۔منصور حلاج نے جونہی آواز حلق سے بلند کی اور پھر پھانسی کی سزا پائی۔ امام  احمد بن حنبل کو کو ڑے مارے گئے سر عام زنجیروں میں جکڑ کر بازاروں میں پھرایا گیا اور تب امام نے وہ تاریخی فقرا دہرایا کہ ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے، کہ کون حق پر تھا، امام کے جنازے میں بغداد میں آٹھ لاکھ لوگ اکھٹے ہوئے جس میں پچاس ہزار عورتٰیں بھی شامل تھیں۔ مجدد الف ثانی نے دربار اکبری میں اس پرچم کو بلند کیا اور پابند سلاسل ہوئے۔ انگریزوں کے خلاف آواز بلند کرنے پربرصغیر کے نامور صحافی مولوی محمد باقر کو توپ کے دہانے کے ساتھ باندھ کر ٹکڑوں میں بدل دیا۔ یہ مولوی محمد باقر 'آب حیات 'کے لکھاری مولانا محمد حسین آزاد کے والد بھی تھے۔

                                                                                                                                

مولانا ظفر علی خان اور زمیندار اخبار پر انگریزی دور کی پابندیاں اور زمیندار سے عوام کی محبت، آزادی صحافت کے متوالوں کے سر کا تاج بنی رہے گی۔زمیندار کی ضمانت ضبط ہونے کے بعد محلوں میں لوگ چادریں پھیلا کر گھومتے اور عورتیں بالکونی سے اپنا زیور پھینک دیتیں۔ آزادی صحافت کا یہ نامور سپاہی ریاست کا جبروستم سہنے والوں کے لئے چراغ راہ روشن کر گیا۔

                                                                                                                             

آزادی مل گئی مگرجبر نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ لیا۔ آزادی کبھی فوجی بوٹوں کے بوجھ سے آزا د ہونے کے لئے تھر تھراتی رہی کبھی اسی آزادی کی بولیاں لگیں، اخبارات کو بند کیا گیا۔ ایوب اور ضیاءدور کے مارشل لا ءکے خلاف لکھنے والے شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں کو زیر اعتاب رکھا گیا جس کی پوری ایک تاریخ ہے۔ ضیاءدور میں صحافیوں کو سرعام کوڑے مارے گئے، آزادی کے پروانے اٹک کی تنگ و تاریک بیرکوں میں اذیتیں سہتے رہے۔

                                                                                                           

اس سلسلے میں جمہوری حکومتوں کا رویہ بھی قابل مذمت ہے۔بھٹو دور میں حکومت پر تنقید کرنے والے اخبارات کو بند کیا گیا اور من پسند صحافیوں کی خریدو فروخت کا طریقہ اپنایا گیا۔ جو اخبارات حکومت پر تنقید کرتے ان کے سرکاری اشتہارات بند کر دئیے جاتے۔ نواز شریف دور حکومت میں صحافیوں اور صحافتی اداروں کو پامال کرنا ایک عام بات رہی ہے۔ تنقید کرنے والے صحافیوں کو جیلوں میں بند کیا گیا، مخالف صحافتی اداروں پر سرکاری اشتہارات کی بندش، من پسند صحافیوں کو نوازنا، تنقید کرنے والوں پر سزائیں لاگو کرنا حکومت کا پرانا وطیرا ہے۔

آج کا میڈیا 1999 ءکے میڈیا کے مقابلے میں بہت آزاد ہے، اس کا اندازہ مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کو بھی بخوببی ہے اسی لئے قلم کی طاقت کو اپنے حق میں رکھنے کے لئے سرکاری عہدوں سے نوازنا اور بیرونی دوروں کے ساتھ رکھنا مسلم لیگ ن کی آزاد میڈیا سے نمٹنے کی حکمت عملی ہے۔ 'نیو نیوز' پر بندش بہت سارے سوالات کو جنم دے چکی ہے۔ 'نیو' کو آزادی اظہار رائے کا نہایت مناسب استعمال کرنے پر انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ نیو نے ظلم کے ضابطوں کو ماننے سے انکار کیا اور بھر پور رد عمل کا اظہار کیا۔ یہ سات دن اور سات راتوں کی بندش کوئی معنی نہیں رکھتی۔ زنجیروں میں جکڑے ہوئے اس معاشرے کو آزاد کروانے کے لئے ان سات دن اور سات راتوں کی بندش کے بعد نیو اپنے تمام تر ہمت و حوصلہ اور بھر پور جذبہ کے ساتھ اپنی جدوجہد کا وہیں سے آغاز کرے گا جہاں  سےدرباریوں نے رکاوٹیں لگا کر روکا تھا۔

مصنف کے بارے میں

عبدالرئوف بلاگر اور کالم نگار ہیں