یوم کشمیر اور وزارت ثقافت پنجاب

 یوم کشمیر اور وزارت ثقافت پنجاب

حالات جیسے بھی ہوں سسٹم اپنا کام جاری رکھتا ہے۔ ملکی سیاسی و معاشی صورتحال کے تمام تر بحرانوں کے باوجود پورے ملک میں یوم کشمیر پورے زور سے منایا گیا اور کیوں نہ منایا جاتا کشمیر سے محبت پاکستانیوں کے دلوں میں زندہ و تابندہ ہے اور قیامت تک رہے گی۔ جانوں کی قربانیاں اگر رائیگاں جایا کرتیں تو آج کربلا بھول بھال چکی ہوتی۔ فلسطین بھی یاد نہ رہتا۔ کشمیر کی آزادی کو معصوموں کے لہو سے سینچا گیا ہے اور لہو کی مہک وقت پر قادر ہوا کرتی ہے۔ باطل قوتیں جتنی بھی بااثر اور طاقتور ہوں لہو کی لہر کے سامنے ہمیشہ بے بس نظر آتی ہیں۔ لاہور کی الحمرا آرٹ کونسل میں یوم یکجہتی ِ کشمیر پورے جوش خروش سے منایا گیا۔ اس ایونٹ کی سب سے اہم خوبی پینٹنگز کی نمائش تھی جس میں مقبوضہ کشمیر پر ہونے والے جبر و تسلط کی داستان رقم تھی۔ ایک ایک تصویر کشمیریوں کی قربانی اور اس پر قبضہ جاری رکھنے والی ریاست کے ظلم اور بربریت کے خلاف ایسا احتجاج پیش کر رہی تھی جسے تاریخ کی دیوار سے ہٹایا نہیں جاسکتا۔ وزیر ثقافت عامر میر، سیکریٹری علی نواز ملک، ایڈیشنل سیکریٹری نادیہ جبین اور ون اینڈ اونلی، لِونگ لیجنڈ لاہور کے آرٹسٹوں کی جان زلفی جسے ہم سب شاعر ادیب، گلوکار اور صحافی پیار کرتے ہیں اور وہ ہم سے پیار کرتا ہے، سب نے مل جل کے کشمیر سے اپنی اٹوٹ محبت کا عملی نمونہ پیش کیا۔ پنجاب آرٹ کونسل کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ابرار عالم کی یاد شدت سے آئی جسے صرف اس لیے ہٹا دیا گیا کہ اس نے پورے پنجاب میں فن و ثقافت کے فروغ کے لیے تن من دھن کے ساتھ کام کیا تھا۔ ٹانگ کھینچنا تو جیسے کمزور اور نا اہل افراد کا آئین بن چکا ہے۔ ہمارا المیہ 
ہی یہ ہے کہ یہاں نوکری کام کرکے نہیں کِلے کے زور پر کی جاتی ہے۔ یہی حال مجلس ترقی ادب کو بام عروج پر پہنچانے والے منصور آفاق کا بھی ہوا۔ یہ دو مثالیں تو بالکل آج کل کی ہیں۔ گزرے وقت پر نظر دوڑائیں تو خوشامد بمقابلہ اہلیت کے روزانہ وار ٹورنامنٹ ہوتے دکھائی دیتے ہیں جس میں جیت ہمیشہ خوشامد کے زور پہ نوکری کرنے والوں کی نظر آتی ہے۔ وزیر ثقافت عامر میر کا نگران وزیر اطلاعات و ثقافت بننا چاہے تحریک انصاف کے لیے قابل قبول ہو یا نہ ہو لیکن پنجاب کے لیے نہایت خوش آئند ہے۔ ان کے بھائی حامد میر کے خیالات سے اختلاف ممکن ہے لیکن اس کی جرأت اور بطور صحافی قائدانہ صلاحیتوں سے اختلاف کسی کو نہیں۔ الحمرا آرٹ کونسل کا صحن کشمیر کے ترانوں سے گونج رہا تھا۔ لاہور کے بچے، نوجوان، بوڑھے اور خواتین جوق در جوق شرکت کے لیے آتے رہے۔ نوجوان گلوکاروں اور پینٹرز نے ایونٹ میں جان ڈالے رکھی۔ ایونٹ میں مشاعرے کی کمی نظر آئی۔ کشمیریوں کے لیے شعرا کی خدمات کو فراموش یا نظر انداز کرنا اور وہ بھی ایسے موقع پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ الحمرا آرٹ کونسل کی مجبوری ہے کہ اسے جن شعرا کے زیر اثر رہنا پڑا ہے ہماری نظر میں شاعر ہیں ہی نہیں بلکہ ادب کے گھْس بیٹھیے ہیں۔ شاید انہیں کاروباری شعرا کی وجہ سے ایونٹ میں مشاعرہ شامل نہیں کیا گیا۔ منصور آفاق اور ابرار عالم ہوتے تو کشمیر پر کلام کی گونج پوری دنیا میں سنائی دیتی۔ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ شاعری، موسیقی اور مصوری جو پیغام پہنچاتے ہیں اور جس طرح پہنچاتے ہیں وہ لاؤڈ سپیکرز مر کر بھی نہیں پہنچا سکتے۔ اگرچہ ہر شعبے میں گھس بیٹھیوں کی اجارہ داریوں نے نقصان پہنچایا ہے لیکن جینوئن تخلیق کار بھی کشمیری اور فلسطینی مجاہدین کی طرح ہر محاذ پر اپنے قائم و دائم ہونے کا ثبوت دیتے چلے آ رہے ہیں۔ 
پاکستانی قوم ایک عجیب قوم ہے جو بڑے سے بڑے بحران میں وطن سے محبت، مظلوم کا ساتھ دینے کی روایت اور بڑی سے بڑی مشکل میں صبر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتی۔
بادی النظر میں لگتا ہے کہ مہنگائی کے سیلاب ِ بلا کے نیچے آ کے پِس جانے والی قوم شاید گھروں سے باہر ہی نہیں آئے گی لیکن ایونٹ میں دیکھا گیا کہ پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے باوجود کاروں والے موٹر سائیکلوں پر، موٹر سائیکلوں والے بائیسائیکلوں پر اور باقی پیدل ہی نکل پڑے لگتے تھے۔ وزیر ثقافت عامر میر کو خدا نے اس محدود عرصے میں وہ کام کر دکھانے کا موقع فراہم کیا ہے جو سیاستدانوں کو بھی ملتا تو ہے لیکن ان کا ویژن ہوتا ہے نہ خواہش۔ سیٹ اور جھنڈے والی گاڑی لیے شہر بھر کو دکھانے کے علاوہ ملک و قوم کے لیے تھوڑا بہت کچھ کر جانے کی طرف ان کا دھیان ہی نہیں جاتا۔ عامر میر بہترین ٹیم بنائیں اور اپنی وزارت کے اداروں کو تعمیری ڈائریکشن میں لانے کے لیے ایک واضح لائن آف ایکشن دیں۔ پاکستانی قوم ایک مشکل ترین وقت سے گزر رہی ہے۔ ثقافتی سرگرمیاں انسانوں میں تہذیب، شائستگی اور توازن پیدا کرتی ہیں۔ تخریب سے روکتی ہیں اور تعمیر کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔ کم از کم اگر ہم اپنی اپنی بساط کے مطابق ہی کچھ کر جائیں تو مل جل کر کی جانے والی معمولی کوشش بھی غیر معمولی ہوجایا کرتی ہے۔ امید ہے عامر میر اس محدود مدت اور کم وسائل میں رہ کر بھی اپنے بعد آنے والوں کے راستے میں چراغ جلا کے جائیں گے۔ یوم یکجہتی کشمیر کامیابی سے منعقد کرنے پر وزارت ثقافت و اطلاعات کو مبارک باد۔