آڈیوز، ویڈیوز …… کتنی پستی، کتنی گراوٹ!

آڈیوز، ویڈیوز …… کتنی پستی، کتنی گراوٹ!

آج کل الیکٹرانک میڈیا پر آڈیوز اور ویڈویوز کا جو تذکرہ اور ان کے افشاء(Leak)کا جو سلسلہ جاری ہے وہ اتنی کثرت سے ہو رہا ہے اور اتنا عام ہے کہ اسے آڈیوز کی لوٹ سیل کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ ہر روز ایک نئی آڈیو سامنے آ رہی یا لائی جا رہی ہے۔ ان آڈیوز میں کیا ہے اور یہ کس کس اور کن کن سے متعلق ہیں اور ان کے مندرجات کس حد تک قابلِ اعتراض اور شرمناک ہیں بلا شبہ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے نوکِ قلم ہی نہیں لرزتی بلکہ دل بھی رنج، دکھ اور افسوس سے بھر جاتا ہے کہ ہماری قومی شخصیات اپنے اقوال اور اخلاق و کردار کے لحاظ سے اس حد تک گراوٹ، پستی، اخلاق باختگی اور حیا سوزی کا شکار ہو سکتی ہیں۔ یقینا یہ سب کچھ ہم سب کے لیے بالخصوص میری طرح کے پرانی سوچ اور پرانی عمر کے لوگوں کے لیے انتہائی شرمناک اور افسوسناک ہے۔ یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ میرے نزدیک کب سے آڈیو زاور ویڈیوز کا ایک مخصوص تصور موجود چلا آ رہا ہے جو آڈیوز اور ویڈیوز کے موجودہ تصور سے یکسر مختلف اور ہٹ کر سمجھا جا سکتا ہے۔ 
آج سے تقریباً تین چار عشرے قبل پچھلی صدی کی اسی اور نوے کی دہائیوں کا وقت تھا جب آڈیوز اور ویڈیوز کی کیسٹوں کا بہت رواج تھا۔ ان کیسٹوں میں شرمناک اور قابلِ اعتراض گفتگو ریکارڈ ہونے یا اخلاق سوز مناظر فلم بند  ہونے کی بجائے زیادہ تر تلاوتِ کلامِ مجید، نعتیہ اور عارفانہ کلام، پرانے اور نئے فلمی گانے اور مقبولِ عام ڈرامے اور فلمیں وغیرہ ریکارڈ اور فلم بند ہوا کرتی تھیں۔ لوگ اپنے اپنے شوق اور دلچسپی کے مطابق آڈیوز کو ریکارڈ پلیر پر سن اور ویڈیوز کو وی سی آر یا وی سی پی کی مدد سے ٹی وی سیٹوں پر دیکھ لیا کرتے تھے۔ ان برسوں میں مجھے بھی نعتیہ اور عارفانہ کلام اور پرانے مقبولِ عام فلمی گانے وغیرہ سننے کا بڑا شوق تھا اور میرے پاس TDKکمپنی کی ڈھیر ساری معیاری آڈیو کیسٹس تھیں۔ ان کیسٹوں میں جہاں اُمِ حبیبہ، منصور تابش، سید ناصر جہاں اور صدیق اسماعیل جیسے معروف نعت خوانوں کی آوازوں میں نعتیہ کلام والی کیسٹیں شامل تھیں وہاں شوکت علی کی آواز میں میاں محمد بخش کا عارفانہ کلام (سیلف الملوک) اور منی بیگم،نیرا نور،  مہدی حسن اور غلام علی کی آوازوں میں بعض شعراء کی غزلوں والی کیسٹیں بھی شامل تھیں۔ ان کے ساتھ مکیش، سہگل، رفیع، عنائت حسین بھٹی، لتا منگیشکر، مالا، نسیم بیگم، ارونہ لیلیٰ اور مہناز وغیرہ کے گائے ہوئے پرانے خوبصورت فلمی گانوں کی آڈیوکیسٹوں کی بڑی تعداد بھی میرے پاس موجود تھی۔ جب کبھی موقع ملتایا فراغت ہوتی تو جاپانی کمپنی نیشنل کے بنے ہوئے ریکارڈ پلیئر پر ان کیسٹوں کو لگا کر سن لیا کرتا تھا۔ نیشنل کا ریکارڈ پلیئر میرے بڑے بھائی حاجی ملک غلام رزاق(اللہ کریم انھیں صحت و سلامتی عطاء کئے رکھے) نے سعودی عرب سے میرے لیے بھجوایا تھا۔ بھائی صاحب سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پاک آرمی کے دستے میں بطور ریڈیو میکنیک تعینات تھے۔ انھوں نے اولین فرصت میں میرے لیے ریکارڈ پلیئر کے علاوہ جاپانی ساختہ یاشیکا الیکٹرو 35، راڈو گھڑی، رے بین کا چشمہ اور کچھ دوسری اشیا بھی بھجوائی تھیں۔ افسوس کہ ان میں سے کوئی بھی چیز محفوظ نہیں رہ سکی کہ میرے گھر میں چوری ہوئی اور چور یہ چیزیں چرا کر لے گئے البتہ TDKکی آڈیو کیسٹیں اب بھی سٹور کی الماری میں پڑی دکھائی دیتی ہیں۔ 
میں ذہن کے نہاں خانے میں موجود یادوں کو کریدتا ہوا دور نکل گیا ورنہ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ آڈیوز کے حوالے سے میری طرح کے لوگوں کا تصور سراسر اس سے مختلف ہے جو آج کل ہمارے میڈیا میں چھایا ہوا ہے۔ جیسے میں نے اُوپر کہا آڈیوز کیسٹیں ہوتی تھیں ان میں TDK کمپنی کی کیسٹیں بہت میعاری سمجھی جاتی تھیں۔ ان میں جو Episode ریکارڈ ہوتا جیسے تلاوت کلام مجید، نعتیہ اور عارفانہ کلام، غزلیں اور گانے وغیرہ ہر کیسٹ کے کور پر اس کی تفصیل لکھی ہوتی تھی۔ یہ کیسٹیں مخصوص دکانوں پر دستیاب ہوتی تھیں اور ضرورت اور پسند کے مطابق ان کو خرید لیا جاتا تھا یا پھر خالی کیسٹ میں اپنی پسند کےEpisodeیا گانے وغیرہ ریکارڈ کروا لیے جاتے تھے یا ٹیپ ریکارڈر پر دوسری کیسٹوں سے ان کو ریکارڈ کر لیا جاتا تھا اور ریکارڈ پلیئر یا ٹیپ ریکارڈ پر  ان کو سن لیا کرتے تھے۔ یہ ایک طرح کی صحت مند تفریح تھی لیکن آج کل کیا ہو رہا ہے؟ میڈیا میں جو کچھ آ رہا ہے اور جس 
طرح کی آڈیوز سننی پڑھ رہی ہیں کیا ان سے بڑھ کر کوئی شرمناک اور افسوسناک بات ہو سکتی ہے؟ یقینا نہیں لیکن شائد یہ ہماری شامتِ اعمال ہے کہ ہمیں یہ سب کچھ سننا اور دیکھنا پڑ رہا ہے۔ شامتِ اعمال سے مجھے یاد آیا۔ دہلی میں مغلیہ سلطنت بہت کمزور ہو گئی اور مغل حکمران عیش و عشرت، طاؤس  و رباب  اور ناچ گانے کے خوب رسیا ہو گئے تو بیرونی حملہ آوروں نے دہلی پر یلغار کرنی شروع کر دی۔ اُسی دور میں اٹھارویں صدی کے چوتھے عشرے میں جب مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا دہلی کے تخت پر حکمران تھا (اُسے رنگیلا اس کی رنگ رلیاں منانے کی وجہ سے کہا جاتا تھا)تو 1737ء میں ایران کے بادشاہ نادر شاہ نے تختِ دہلی پر حملہ کیا۔ مغلیہ فوجوں کو شکست دی اور کئی دنوں تک دہلی میں قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم رکھا تو اس دور کے حوالے سے فارسی زبان کا یہ معقولہ" شامت اعمال ماصورت نادر گرفت  "بڑا مشہور ہوا۔ یعنی ہمارے اعمال کی شامت (برائی، سزا) نے نادر کی صور ت اختیار کی جو ہمارے لیے قہر خداوندی بن کر آیا۔ تو کیا آج کل جو آڈیوز کیسٹس سامنے آ چکی ہیں یا آ رہی ہیں یا آنے والی ہیں اور ویڈیوز کی باری بھی آنے والی ہے تو کیا یہ سب ہمارے اعمال کی شامت نہیں ہے؟ کہ ہم نے اپنی قیادت وسیادت، اختیار و اقتدار اور حکمرانی اور راہنمائی ایسے لوگوں کو سونپ رکھی ہے کہ جن کے حیا سوزی، اخلاق باختگی اور مخرب اخلاق باتوں سے عبارت ایسے کرتوت سامنے آرہے ہیں کہ قلم کو ان کے لکھنے کا یارا نہیں  
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جو آڈیوز ان دنوں سامنے آئی ہیں ان میں سے ایک دو کو چھوڑ کر باقی کا تعلق سابق وزیرِ اعظم جناب عمران خان یا ان کے حرم (ان کی اہلیہ سابقہ خاتون اول محترم بشریٰ بی بی المعروف بہہ پنکی پیرنی) سے جڑتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان آڈیوز میں کتر بیونت یا ایڈیٹنگ کرکے مختلف ٹکڑے جوڑے گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو تاہم یہ ان آڈیوز کی فرانزک سے ہی صحیح پتہ چل سکتا ہے۔ لیکن فرانزک یا ایڈیٹنگ سے قطع نظر یہ آڈیوز جن سے متعلق ہیں یعنی جناب عمران خان وہ ان آڈیوز کے حقیقی ہونے کو نہ تو جھٹلا رہے ہیں اور نہ ہی انھیں جعلی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا اس سے ہٹ کر یہی کہنا ہے کہ یہ آڈیوز اتنی مخرب اخلاق، حیا سوز اور شرم و حیا کے منافی مواد پر مشتمل ہیں کہ ان کے میڈیا میں اس طرح سامنے آنے اور پھیلانے سے نئی پود کے اخلا ق و کردار پر برے اثرات پڑنے کے امکانات ہیں لہٰذا انھیں اسطرح میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کی زینت نہیں بنایا جانا چاہیے۔ جناب عمران کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان آڈیوز کے مواد کی تشہیر گناہوں کی تشہیر کے مترادف ہے جبکہ ہمارا دین دوسروں کے عبوں اور گناہوں کی پردہ پوشی کا حکم دیتا ہے۔ 
جناب عمران خان کے گناہوں کی تشہیر کو روکنے یا دوسروں کے عبوں پر پردہ ڈالنے کے استدلال میں وزن ہو سکتا ہے لیکن ان سے بصد ادب یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ خود کتنا دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالتے رہے ہیں۔ پھر ان آڈیوز میں ان کے بارے میں جو کچھ مواد سامنے آ رہا ہے کیا اس کا وہ کچھ بھی جواز پیش کر سکتے ہیں؟ کیا اس سے ان کی شخصیت کے مبینہ طور پر ایک انتہائی نازیبا، ناپسندیدہ  اور قابلِ نفرت پہلو کا اظہار سامنے نہیں آتا؟ اور کیا یہ انتہائی دکھ کی بات نہیں ہے کہ ایک طرف وہ ریاستِ مدینہ کی باتیں کریں اور دوسری طرف ان سے اس طرح کی حیا باختگی اور اخلاق سوزی کی باتیں جڑ رہی ہوں۔ اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے یقینا کم ہے۔