”نیا سفر ہے پرانے چراغ گل کر دو“

”نیا سفر ہے پرانے چراغ گل کر دو“

 پاکستان کے قومی سیاسی دھارے میں سال 2022ء کی پوزیشن واضح کرنے کیلئے یہاں دو مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ ہماری پارلیمنٹ  میں جب کوئی ممبر یعنی قانون دان بہت زیادہ بد تمیزی غلیظ زبان یا گالم گلوچ کرتا ہے اور جب جی بھر کر یہ ہوس پوری کر لیتا ہے تو سپیکر قومی اسمبلی یا چیئر مین سینٹ اپنے عملے کو ہدایت کرتے ہیں کہ معزز (جی ہاں معزز ہونے پر زور دیا جاتا ہے) رکن کے یہ الفاظ اجلاس کی کارروائی سے حذف یا Expunge کر دیئے جائیں۔ اس کی دوسری مثال یوں ہے کہ جب کھیل کے میدان میں کوئی خلاف معمول عمل ہوتا ہے یا ریفری / امپائر کے غلط فیصلے پر ٹیم اپنے کوچ سے ہدایت چاہتی ہے تو اس کیلئے ٹائم آؤٹ کیا جاتا ہے اور وہ دورانیہ کھیل کے مقررہ وقت سے حذف کر دیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اگر ہم پاکستان کی سیاست میں 2022 کی حقیقت کا تعین کرنا چاہیں تو میرا خیال یہ ہے کہ کاش اس سال کو ملک کے قومی سیاسی کیلنڈر سے حذف یا Expunge کرنا ممکن ہوتا۔ لیکن ایسا ہونا بدقسمتی سے ممکن نہیں ہے۔اس سال میں ایسے ایسے کر توت ہوئے ہیں جو شاید پہلے آج تک دیکھنے میں نہیں آئے۔
انگریزی زبان میں بڑی وسعت ہے ایک ہی لفظ درجن بھر مختلف معنی رکھتا ہے جیسا کہ انگریزی کا ایک لفظ بریک ہے جسے میڈیا والے بریکنگ نیوز کے نام سے جانتے ہیں اس کا مطلب توڑدینا بھی ہوتا ہے اور کام کے دوران وقفہ بھی بریک کہلاتا ہے تھوڑی سے مختلف سپیلنگ کے ساتھ ایک گاڑی کو روکنے کے عمل کیلئے بھی جو فعل انجام دیا جاتا ہے اسے بریک کہتے میں اتفاق کی بات ہے کہ 2022 کی مناسبت سے پاکستان کی ترقی کے عمل میں مندرجہ بالا تمام بریکوں نے بدرجہا اپنا کام کیا ہے جن میں سے کوئی بھی مثبت یا صحتمند مفہوم نہیں رکھتا۔
2022 کے شروع میں ہے ملک میں سیاسی عدم استحکام شروع ہو گیا تھا جب مارچ میں ایک طرف ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے کٹھ پتلی وزیرا علیٰ عثمان بزدار کو ان کی پارٹی نے گھر بھیج دیا اور اس گناہ کے کفارہ کے طور پر اس سے بھی بڑا سیاسی گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتے ہوئے ایک بدنام زمانہ سودے بازی کے ذریعے پرویز الٰہی کو وزیرا علیٰ بنایا گیا یہ ایک طویل کہانی ہے مگر اس سے بھی بڑی کہانی یہ تھی کہ وفاق میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آ گئی جو پاکستان کی تاریخ کے بہت بڑے آئینی بحران کا سبب بنی۔ 4 اپریل کو جب قائم مقام سپیکر قاسم سوری کے اعتماد کے ووٹ کیلئے بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس کو یہ کہہ کر برخاست کر دیا کہ عدم اعتماد کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ہے حالانکہ یہ اجلاس ووٹنگ کرانے اور وزیر اعظم کو اکثریت ثابت کرنے کیلئے بلایا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نے صدر پاکستان کو اسمبلیاں تحلیل کرنے اور نئے انتخابات کی سمری بھجوا دی اور صدر نے فوراً اسمبلیوں کی تحلیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ یہ ساری کارروائی آئین کا مذاق اڑانے بلکہ آئین کی دھجیاں بکھیرنے کیلئے کافی تھی عالمی میڈیا میں اسے آئینی بحران سے تعبیر کیا گیا جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے از خود نوٹس لیتے ہوئے ہیں ان سارے غیر آئینی اقدامات کے پورے سلسلے کو غیر آئینی قرار دیا اچھی بات یہ تھی کہ 5رکنی بنچ نے متفقہ طور پر فیصلہ دیا۔ اسمبلی کو بحال کر کے ایک بار پھر وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے کہا گیا اور مقررہ تاریخ کو رات گئے تک جاری رہنے والے اجلاس میں ووٹنگ کرانے سے دانستہ اجتناب کیا گیا جس کے بعد سپیکر اور ڈپٹی سپیکر نے استعفے دے دیے مگر اس کے باوجود پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عمران خان کو آئینی بے تو قیری حاصل ہوئی کہ وہ عدم اعتماد کے ذریعے فارغ ہونے والے پہلے وزیر اعظم بن گئے۔ ان کے پاس باعزت طور پر استعفیٰ دے کر سبکدوش ہونے کا آپشن تھا مگر وہ سیاست کو کرکٹ قرار دیتے رہے اور آخری بال تک کھیلنے کی ضد کرتے رہے بہر حال ان کو ایوان وزیراعظم میں آدھی رات کے وقت آخری بال کرائے جانے کی کہانی براہ راست ٹیلی کاسٹ نہ ہوسکی ایک طرح سے اچھا ہی ہوا۔ عدم اعتماد کے بعد کے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے شہباز شریف وزیر اعظم بنے۔ تاریخ میں پہلی بار 12 جماعتوں کے اتحاد نے مل کر حکومت بنائی یہ اتحاد مہنگائی کے خلاف تحریک انصاف کی ناقص کارکردگی کی بناء پر وجود میں آیا تھا مگر اس نے مہنگائی کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔ 
گزشتہ سال کے آغاز میں پٹرول کی فی لٹر قیمت 144 روپے تھی جو کہ مال کے اختتام پر 215 روپے تھی پوری دنیا میں پٹرول کی قیمتوں میں کمی آرہی ہے لیکن پاکستان میں اس کی قیمت میں کمی نہیں کی جارہی بلکہ جب پٹرول 144 کا لٹر تھا تو اس میں پٹرولیم لیوی زہرو تھی موجودہ قیمت میں 50 روپے فی لٹر لیوی آئی ایم ایف کی سفارش پر کی گئی ہے ورنہ پیڑول 185 کا لٹر ہوتا۔ 
پاکستان کو اگلے تین ماہ میں ساڑھے آٹھ بلین ڈالر قرضوں کی واپسی کا چیلنج در پیش ہے وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ اس وقت ملک کو کم از کم 30 ارب ڈالر درکار ہیں سیاسی عدم استحکام نے معیشت کی چولیں ہلا دی ہیں۔رخصت ہونے والے سال کی اچھی بات ویسے تو کوئی نظر نہیں آرہی مگر سوچا جائے تو پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی خبریں جتنی شدت سے آ رہی تھیں ان حالات میں ملک کا گزشتہ سال دیوالیہ نہ ہونا ایک کامیابی ہے۔ سی پیک پر کام کی رفتار میں تعطل آیا جس کی ایک وجہ چینی انجینئرز پر خودکش حملہ اور سکیورٹی کی صورتحال تھی اس سے پاکستان اور چائنا کے باہمی تعلقات بھی متاثر ہوئے اس وقت پاکستان کے قرضوں کا 30 فیصد چائنا سے لیا گیا ہے۔ چائنا پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے لیکن اس کے باوجو ان تعلقات میں گاہے بگا ہے سست روی آجاتی ہے۔ 
نیا سال پاکستان میں عام انتخابات کا سال ہے لیکن سیاسی افراتفری جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس میں ملک کے معاشی مسائل جوں کے توں میں ڈالر 226 روپے کا بنک ریٹ سے مگر کرنسی مارکیٹ میں اس کی قیمت کا فرق 10 روپے سے بھی زیادہ ہے جو پہلے محض ایک یا ڈیڑھ روپے تک ہوتا تھا۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال تحریک انصاف حکومت کے خاتمے پر ڈالر 188کا تھا اور نئی حکومت نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ 200 کا ہو جائے گا مگر معاملہ حکومت کے اندازے سے زیادہ خراب ثابت ہوا اور ڈالر ایک وقت 240 تک چلا گیا تھا جس پر نیا وزیر خزانہ لایا گیا۔
 نئے سال میں تحریک انصاف چیئر مین عمران خان کی سیاست سے نا اہلی ہو سکتی ہے کیونکہ ان کے خلاف سارے کیسوں کے فیصلے نئے سال میں ہونے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان تحریک انصاف کے منتشر ہونے کے خطرات بڑھ جائیں گے کیونکہ اقتدار کے خواہشمند سیاستدان پارٹی چھوڑنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ یہ نا اہلی میاں نواز شریف کی نااہلی سے مختلف ہوگی۔ نواز شریف کی نا اہلیت کے باوجود ان کی پارٹی یکجا رہی اور اپنی قیادت کے تابع رہی جس کی وجہ سے نواز شریف سیاست سے آؤٹ نہیں ہوئے مگر تحریک انصاف میں ایسا نہیں ہوگا۔