ووٹ کی طاقت اور مستقبل!

ووٹ کی طاقت اور مستقبل!

وطن عزیز میں عام انتخابات کی آمد کے ساتھ ہی پانچ برس سے بچھڑے عوامی نمائندوں نے گلی کوچوں کا رُخ کرلیا ہے، الیکشن کی گہماگہمی محسوس کی جانے لگی ہے، انتخابی سرگرمیاں تیز کر دی گئی ہیں، ہر کسی کی غمی اور خوشی میں شریک ہونا عین عبادت سمجھ لیا گیاہے، ڈیروں پر طعام کا خصوصی انتظام کیا جارہا ہے، ناراض دھڑوں کو راضی کرنے کی سرتوڑ کوشش کی جارہی ہے، عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے سازباز کئے جارہے ہیں، گلیوں کی نکڑوں پر بینرزآویزاں کردیئے گئے ہیں، جلسوں ،کارنر میٹنگز اور ریلیوں میں علاقے کی خوشحالی اور ترقی کے لیے بلند بانگ دعوے کیے جارہے ہیں، خوشنما وعدوں اور دلفریب نعروں کے جال میں سادہ لوح عوام کو پھنسایا جا رہا ہے، منتخب بلدیاتی نمائندوں کو بھی ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں کہ اپنے علاقے کے لوگوں کا ووٹ ہمیں دلا کر اپنی وفاداری کا ثبوت دیں۔

عام طور پر ووٹر کی دو قسمیں ہیں ،نظریاتی اور شخصیاتی۔ نظریاتی ووٹرسے مراد جو نظریئے کا حامی ہو، خاص سوچ کا پابند ہو، کسی سیاسی یا مذہبی پارٹی کے نظریئے سے متاثر ہو کر ووٹ دے۔ لیکن جب لیڈرہی نظریئے سے ہٹ جائے اور نظریاتی ووٹر اپنے لیڈر کے ہر غلط اقدام کو بھی درست مانتا چلا جائے تو وہ نظریاتی نہیں بلکہ شخصیاتی ووٹر کہلائے گا ۔ شخصیاتی ووٹر جو کسی پارٹی کی بجائے اپنی پسندیدہ شخصیت کو ووٹ دے۔ درحقیقت شخصیاتی ووٹرز دھڑےبازی، مفاد پرستی، برادری ازم، مسلک پرستی اور لسانیت کی بنیاد پر اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔حکمران پُرامید ہوتے ہیں کہ اگر ان کی کارکردگی ناقص بھی رہی تو ان کا ذاتی ووٹ بینک موجود ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی 58 فیصد ہے ۔ کسی بھی زبان میں سادہ خط پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت کے حامل افراد کو خواندہ کہتے ہیں۔اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ تعلیم کی کمی بھی ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ تعلیم یافتہ معاشروں میں عوام کو بخوبی احساس ہوتا ہے کہ ان کا ووٹ ملک کے لیے کتنا اہم ہے۔

جمہوریت کی تعریف کچھ یوں ہے " عوام کی حکومت، عوام کی خاطر اور عوام کے ذریعے"۔ جمہوری حکومتوں میں ووٹ کی بہت اہمیت ہوتی ہے ۔ دنیا کے حقیقی جمہوری ممالک میں الیکشن سے پہلے جامع اورمفصل منشور عوام کے سامنے رکھا جاتا ہے۔عوام منشور کو پرکھتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ مگر پاکستان میں ووٹ دینے کا طریقہ کار مختلف ہے۔عوام کے نزدیک امیدوارکا اہل یا نااہل ہونے کا پیمانہ عجیب ہی ہوتا ہے ۔جن میں بریانی کی پلیٹ ، گلی کو پختہ کروانا، نوکری کا وعدہ لینا، امیدوار کا برادری سے تعلق ہونا، گاؤں یا حلقہ کے چوہدری کا حکم ہونا وغیرہ۔

عام طور پر ہم لوگ ووٹ کی طاقت واہمیت سے لاعلمی کی بناء پر کرپٹ، جاگیردار، سرمایہ دار، قبضہ مافیا کا انتخاب کر تے ہیں اور پھر اس کا خمیازہ اگلے پانچ سال بھگتتے رہتے ہیں۔عوام کو رائے دہی کے وقت قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر نمائندے چننا ہوں گے۔ ایسے لوگ لانے ہوں گے جو عوام الناس کی حقیقی نمائندگی کرسکیں، جن کے پاس عوامی مسائل کا ٹھوس حل موجود ہو، جن کا منشور الفاظ کی بجائے قابلِ عمل حکمت عملی پرمشتمل ہو۔ قومی سطح کے لیڈروں کا موازنہ کریں اور پھر اپنے حلقے کے امیدواروں کی اہلیت اور قابلیت کو بھی جانچیں ۔منتخب نمائندوں سے اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑیں ۔اسی سے حقیقی تبدیلی آئے گی۔

زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کے لیے
عہدِ کم ظرف کی ہر بات گوارہ کرلیں


فرازناصر دھاریوال

(ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں )