حسین نواز کی تصویر کا معاملہ، جے آئی ٹی کے سربراہ سے جواب طلب

حسین نواز کی تصویر کا معاملہ، جے آئی ٹی کے سربراہ سے جواب طلب

اسلام آباد: پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں اپنی دوسری رپورٹ پیش کر دی۔ عدالت کا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی کارکردگی پر اظہار اطمینان کیا۔ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے عدالت کو تحقیقات میں درپیش مشکلات سے آگاہ کیا۔ جسٹس اعجاز افضل نے واضح کیا کہ جے آئی ٹی کو ایک دن بھی اضافی نہیں دیا جائے گا۔

تحقیقات میں پیش آنے والی مشکلات سے متعلق تحریری طور پر آگاہ کرنے کی ہدایت بھی کر دی۔ فوٹو لیک سے متعلق وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی درخواست پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ تصویر پر وقت اور تاریخ واضح ہے۔

عدالت دیکھے گی کہ لیک تصویر سے متعلق تحقیقات ہونی چاہئے یا نہیں۔ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی جانب سے پیش کردہ 15 روزہ کارکردگی رپورٹ دوبارہ سیل کر کے رجسٹرار کو بھجوانے کی ہدایت کی اورکیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔

ادھر وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے دوران تصویر لیک ہونے کے معاملے پر سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔ حسین نواز نے درخواست میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بنا کر تحقیقات کی جائیں کہ تصویر کیسے لیک ہوئی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ تصویر لیک ہونے کے ذمہ دار جے آئی ٹی سربراہ اور اراکین ہیں ۔ تصویر لیک ہونا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اس کا مقصد تضحیک کرنا تھا ۔ خواجہ حارث ایڈووکیٹ کے ذریعے دائر درخواست میں حسین نواز نے کہا کہ تصویر لیک کر کے آئندہ طلب کیے جانے والوں کو پیغام دیا گیا ہے کہ وہ جے آئی ٹی کے رحم و کرم پر ہوں گے۔

تنازعات

مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں حسین نواز کی پاناما پیپر کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی) کے سامنے پیشی کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر لیک ہونے کے معاملے پر ایک دوسرے پر الزامات عائد کر رہے ہیں۔دونوں فریقین کا موقف ہے کہ یہ تصویر سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر لیک کی گئی۔

مذکورہ تصویر جو کسی سی سی ٹی وی فوٹیج سے لیا گیا اسکرین شاٹ معلوم ہوتی ہے پر 28 مئی کی تاریخ درج ہے۔ یہ وہی دن ہے جب حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پہلی مرتبہ پیش ہوئے تھے۔

نہال ہاشمی نے شریف خاندان سے حساب لینے والوں پر پاکستان کی زمین تنگ کر دینے کی دھمکی دی تھی۔ غیر ذمہ دارانہ اور دھمکی آمیز تقریر کا وزیراعظم نواز شریف نے نوٹس لے لیا تھا جبکہ نہال ہاشمی کی بنیادی پارٹی رکنیت بھی معطل کر دی گئی۔ بعد ازاں نہال ہاشمی نے سینیٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا لیکن انہوں نے یو ٹرن لے لیا تھا اور چیئرمین سینیٹ سے استعفیٰ منظوری نہ کرنے کی درخواست کی تھی۔

7 جون کو چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے رولنگ سناتے ہوئے کہا کہ انھوں نے یکم جون کو سینیٹ سیکریٹریٹ کو ایک نوٹس جاری کرنے کیلئے کہا تھا کہ نہال ہاشمی 5 جون 2017 کو خود پیش ہو کر استعفیٰ دینے کی وجوہات بتائیں انھوں نے پیش ہونے سے معذرت کی اور نئی تاریخ دینے کی استدعا کی تھی۔

انھوں ںے کہا کہ نہال ہاشمی 6 جون کو خود میرے سامنے پیش ہوئے اور ان کا استعفیٰ منظور نہ کرنے کی درخواست کی جسے منظور کر لیا گیا۔

نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں