توشہ خانہ کیس ، عمران خان کی وارنٹ گرفتاری مسترد کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ 

توشہ خانہ کیس ، عمران خان کی وارنٹ گرفتاری مسترد کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ 
سورس: File

اسلام آباد: توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس میں عمران خان کے وارنٹ گرفتاری مسترد کرنے کی درخواست پر  اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جو تھوڑی دیر بعد سنایا جائے گا۔ 

سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کا حکم اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا جس کی سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے کی۔ ہائیکورٹ میں عمران خان نے وکیل علی بخاری کے ذریعے درخواست دائر کی، جس میں ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کا حکم چیلنج کیا گیا۔

سماعت کے دوران عمران خان کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل کا کہنا تھا کہ عدالت خود اپنی اور ان کی سکیورٹی کا بندوبست کریں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میری جان کی فکر چھوڑیں۔’میری جان اللہ کی امانت ہے اور مجھے اپنی جان سے زیادہ یہاں ہر آنے والے سائلین کی فکر ہے۔‘

وکیل عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ پرائیویٹ کمپلیننٹ نومبر 2022 کو دائر ہوئی اور 15 دسمبر کو نوٹس جاری ہوا، 28 فروری کے لیے عمران خان کی طلبی کا کیس سماعت کے لیے مقرر تھا، عمران خان 28 فروری کو دو اسپیشل کورٹس اور ایک ہائی کورٹ میں پیش ہوئے، ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے جس کے بعد منسوخی کی درخواست بھی خارج ہوگئی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے نے ریمارکس دیے کہ وارنٹ گرفتاری کے تو نہیں تھے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ وارنٹ گرفتاری کے تھے۔ چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ قیصر صاحب اب ایسی بات نا کریں، یہ وارنٹ ان کی پیشی یقینی بنانے کے لیے تھا۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ ابھی ہم نے دو درخواستیں قابل سماعت ہونے سے متعلق دائر کرنی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کورٹ فریم آف چارج کے لیے ہی تو بلا رہی ہے اور عدالت نے عمران خان کی حاضری یقینی بنانے کے لیے حکم دیا لیکن آپ پیش نہیں ہوئے۔

  

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جو وارنٹ لیکر کھڑے ہیں وہ چاہتے ہیں گرفتار کیا جائے اور دو مقدمے اسی بنیاد پر درج کیے گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ مقدمے کسی اور وجہ سے درج ہوئے، آپ نے اس آرڈر کے تحت پیش ہونا تھا اب یہ بتائیں کب پیش ہونا ہے؟

وکیل عمران خان نے کہا کہ اس وقت عمران خان کے خلاف چار مقدمے درج ہوئے ہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ چارج فریم کے لیے آپ کب ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش ہوں گے؟ ابھی عدالت ٹرائل کورٹ کو کارروائی سے روکنے کا کوئی حکم نہیں دے رہی، چارج فریم ہو جائے اس کے بعد جتنی مرضی آپ استثنیٰ لے لیں اور آپ نے ہائیکورٹ میں 9 مارچ کو پیش ہونا ہے۔

وکیل بیرسٹر گوہر نے کہا کہ عمران خان کو سیکیورٹی خدشات بھی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کب ٹرائل کورٹ پیش ہوں گے؟ عدالت کو ہدایات لیکر بتا دیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہمیں روزانہ تھریٹس آرہے ہیں کیا میں یہ عدالت بند کر دوں؟ آئی جی میرے پاس آئے کہ ججز کو سیکیورٹی تھریٹس ہیں، میں آپ کے ساتھ سیکیورٹی تھریٹس خطوط شیئر کر دیتا ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ ہفتے ہائی کورٹ میں کیا ہوا؟ کیا بے نظیر بھٹو کے واقعے کو دہرانا چاہتے ہیں؟ آپ کچھ لوگ آئیں تاکہ ایسی صورتحال ہی نا بنے۔ عدالت نے قیصر امام کو ہدایت کی کہ وکلا کو کہیں کہ وہ اسکینرز پر اعتراض نا کریں۔

  

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ میں نوٹس کو وصول کر رہا ہوں کل دلائل دوں گا، عمران خان کی اپیل قابل سماعت نہیں ہے اور عمران خان اگر 9 مارچ کو پیشی کی یقین دہانی کروا دیں تو میں مخالفت نہیں کروں گا۔ وکیل علی بخاری نے کہا کہ اگر کوئی اسلام آباد ہائیکورٹ میں بیٹھا ہو اور سیشن کورٹ پر کیسے آرڈر کر سکتی ہے؟

عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ عدالت کو یقین دہانی کروا سکتے ہیں کہ آپ نے واقعی اس دن عدالت پیش ہونا تھا۔ عدالت نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جس دن پیش ہو سکتے ہیں وہ تاریخ دے دیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پیش نہ ہونے پر کارروائی آگے بڑھانے کا اور کیا طریقہ ہے؟ وکلاء نے کہا کہ ویڈیو لنک پر حاضری لگائی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسی کوئی نظیر نہیں بنا سکتے جس پر آگے عمل مشکل ہو۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ سسٹم کے ساتھ مذاق نا کریں، اگر آپ کو سہولت دیتا ہوں تو پھر ہر کسی کو یہ سہولت دوں گا، آپ صبح یا ابھی ہدایات لے کر آجائیں عدالت سن لے گی۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ یہ ایک طرف سیکیورٹی کا ایشو اٹھا رہے ہیں دوسری طرف انتخابی مہم شروع کر رہے ہیں، جس پر عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام کو ہدایت کی کہ سیاسی بات نا کریں۔ وکیل عمران خان نے کہا کہ سیکیورٹی خدشات کے باعث ہم نے ویڈیو لنک کی استدعا کی تھی۔

عمران خان کی وکیل نے استدعا کی کہ عدالت صبح کے لیے وقت دے اور ٹرائل کورٹ کا آرڈر معطل کر دے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل کے لیے نوٹس جاری کرتا ہوں لیکن معطل نہیں کروں گا۔ 

مصنف کے بارے میں