بھارت    نے تحریک کشمیر کو ختم کرنے کے لیے نوجوانوں کو قتل کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا

 بھارت    نے تحریک کشمیر کو ختم کرنے کے لیے نوجوانوں کو قتل کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا

اسلام آباد:جنیوا میں مقیم اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید راعد الحسین ( Zeid Ra'ad Al Hussein ) کو بھیجی گئی ایک دستاویز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت کے زیرانتظام جموں کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے خصوصی منصوبہ بنایا گیا ہے اس منصوبے کے تحت نوجوانوں کے قتل پر فورسز کے لئے انعامی رقم مختص کی گئی ہے ۔

نوجوانوں بالخصوص عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے ان کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ درجہ بندی A کے نوجوان کے قتل پر 10 سے 12 لاکھ ر روپے، درجہ بندی A کے نوجوان کے قتل پر 5 سے 7 لاکھ پچاس ہزار روپے، درجہ بندی A کے نوجوان کے قتل پر 3 سے 5 لاکھ روپے، درجہ بندی B کے نوجوان کے قتل پر 2 سے 3 لاکھ روپے فورسز اہلکاروں کو انعام دیا جاتا ہے۔

جموں وکشمیر کونسل برائے فروغ انسانی حقوق جے کے سی ایچ آر کے صدر ڈاکٹر سید نذیر گیلانی نے ایک خصوصی برقی مراسلے کی صورت میں جنیوا میں مقیم اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید راعد الحسین کو یہ دستاویز روانہ کی ہے۔ جے کے سی ایچ آر کے زیراہتمام اسلام آباد میں کشمیری رہنماؤں کی کل جماعتی کانفرنس میں اس دستاویز کی منظوری دی گی ۔

کانفرنس کا موضوع کشمیر میں بھارتی مظالم اچھے کمیونٹی تعلقات کے لیے خطرہ تھا۔ آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان اور سابق صدر آزاد کشمیر سردار محمد انور خان کی صدارت میں کانفرنس کے دو الگ الگ سیشن ہوئے جن میں جموں وکشمیر کی صورت حال کو زیر بحث لایا گیا۔ اس دستاویز میں ڈاکٹر سید نذیر گیلانی نے لکھا ہے کہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے مظالم کے نتیجے میں بیرونی دنیا بالخصوص یورپ، امریکہ اور مڈل ایسٹ اور دنیا کے دوسرے علاقے اس صورتحال سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

بھارتی فورسز کے ہاتھوں کشمیر میں مردوں، عورتوں، نوجوانوں اور بچوں کا قتل عام کشمیری تارکین وطن پر اثرانداز ہو گا جس کے نتیجے میں یورپ، امریکہ اور مڈل ایسٹ میں کمیونٹی تعلقات متاثر ہونگے۔ 31 مارچ 1959ء تک بھارت کے شہری کشمیر میں انٹری پرمٹ کے ذریعے داخل ہوتے تھے۔ مگر اب صورتحال یہ ہے کہ بھارتی فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں کشمیریوں کی پانچ نسلیں متاثر ہوئی ہیں۔ بڑی تعداد میں کشمیری گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں بالخصوص آزادکشمیر اور پاکستان میں مہاجر کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوئے۔

1997ء میں ایک لاکھ 20 ہزار یاتری کشمیر آئے جبکہ 2015ء میں یہ تعداد بڑھ کر 5 لاکھ ہو گئی۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ یاتریوں کی حفاظت کے نام پر 30 ہزار سے زیادہ فوجی تعینات ہوتے ہیں۔ یاتریوں کی تعداد میں اضافہ ہندو قوم پرستوں کی عددی تعداد بڑھانا ہے۔ دوسری طرف بھارت اقوام متحدہ کی قرارداد 21 اپریل 1948ء کی خلاف ورزی کر کے جموں کشمیر سے بے گھر ہونے والے شہریوں کی محفوظ، باعزت گھروںکو واپسی سے مسلسل انکار کر رہا ہے۔ جے کے سی ایچ آر کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ بھارتی وزارت داخلہ نے جموں کشمیر کے بارے میں 15 نکاتی منصوبہ بنا رکھا ہے۔ اس منصوبے میں کشمیریوں کی 3 دہائیوں سے جاری مزاحمتی تحریک کو ختم کرنے اور کشمیریوں کے قتل عام کے لئے سپیشل آپریشن گروپ بھی 2002ء میں بنایا گیا تھا۔ اس منصوبے کی حتمی منظوری بھارتی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر نے دی تھی۔ جموں کشمیر میں تعینات بھارتی سکیورٹی فورسز جو دراصل اب قابض فورس ہے۔

2016ء میں کشمیر کی تاریخ کا طویل ترین 127 روزہ کرفیو لگایا گیا۔ یہ کرفیو آٹھ جولائی سے 11 نومبر تک جاری رہا۔ جموں کشمیر میں پہلا کرفیو مہاراجہ نے 1931ء کو لگایا تھا جو 24 ستمبر سے 5 اکتوبر 1931ء تک 12 دن جاری رہا تھا۔ اس کرفیو کے ذریعے ہندو مہاراجہ نے کشمیریوں کو سزا دی تھی۔ ڈاکٹر سید نذیر گیلانی نے دستاویز میں لکھا ہے کہ جموں کشمیر میں بھارتی فورسز کے مظالم کے نتیجے میں دنیا کے مختلف خطوں میں مقیم کشمیریوں کی زندگی بھی متاثر ہو رہی ہے اس کا نتیجہ ان ممالک میں کمیونٹی پر تعلقات پر پڑے گا۔

دستاویز کے مطابق بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے جنرل سیکرٹری رام مادیو نے 27 اپریل 2017ء کو کشمیر میں بھارتی مظالم کی حمایت کی اور کہا کہ 27 سالہ کشمیری شال باف کو انسانی ڈھال بنا کر فوجی جیپ کے آگے باندھ کر گاؤں میں گھمانا درست قدم ہے۔ رام مادیو نے یہ بھی کہا کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔

گول میز کانفرنس کی رائے میں جموں کشمیر میں بھارتی فورسز کی ان کارروائیوں کے نتیجے میں صورتحال سنگین ہو چکی ہے اور کشمیریوں کے لئے اپنا دفاع کرنا ناگزیر ہے۔ کشمیر کی صورتحال دراصل بھارت کی طرف سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف جنگ ہے۔ دستاویز کے مطابق بی جے پی کے وزیر انڈسٹریز چندر پرکاش نے یہ بھی کہا کہ کشمیر میں احتجاج کرنے والوں کا واحد علاج گولی ہے۔

بھارتی اٹارنی جنرل مکھل روگتی نے 27 سالہ کشمیری شال باف، فاروق احمد ڈار کے تناظر میں کہا کہ کشمیر میں شہریوں کو انسانی ڈھال بنانا کچھ غلط نہیں۔ دستاویز کے مطابق بھارت کشمیر میں جنگی جرائم میں ملوث ہے۔ ان جنگی جرائم پر فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جموں وکشمیر کونسل برائے فروغ انسانی حقوق جے کے سی ایچ آر دستاویز کی کاپی برطانوی ہاوس آف کامن میں کل جماعتی پارلیمانی گروپ برائے کشمیر کے چیرمین ڈیوڈ نتالDavid Nuttall MP کو بھی بھیجی گئی ہے ۔