عمران خان کی نئی ’’حکمت عملی‘‘

عمران خان کی نئی ’’حکمت عملی‘‘

شیخ رشید ہماری عوامی سیاست کا ایک ایسا کریکٹر ہیں بلکہ کریکٹر ایکٹر ہیں جو راولپنڈی کی گلیوں محلوں سے اٹھ کر ایوان اقتدار تک پہنچے ہیں اور پھر وہاں کے ہی ہو رہے ہیں۔ سیاست میں خوشامد کے عنصر کا مطالعہ کرنا ہو تو شیخ رشید اس کریکٹر کی حسین مثال ہیں۔ اگر پارٹیاں بدلنے کے کھیل کا ماہر دیکھنا ہو تو بھی شیخ حساس کردار کی مکمل تمثیل بن کر سامنے آتے ہیں۔ سیاست میں دھونس دھاندلی ، بدکلامی اور بدزبانی کے عنصر کو دیکھنا ہو تو قومی سیاست میں شیخ صاحب سے بہتر کردار ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ وہ چودھری ظہور الٰہی کے ’’چھوٹے‘‘ سے ہوتے ہوئے راولپنڈی ٹیکنالوجی کالج کے سٹوڈنٹ لیڈر پھر مسلم لیگ کے کارکن سے ہوتے ہوئے ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کی تابعداری کرتے کرتے قومی سیاست کے وسیع میدان میں پہنچے پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ نواز شریف، جنرل مشرف، ق لیگ سے ہوتے ہوتے عوامی لیگ کے پلیٹ فارم تک پہنچے ہوئے ہیں۔ عمران خان جسے وہ ’’تانگے کی پارٹی‘‘ قرار دیتے تھے، آج کل ان کے قائد اور محب ہیں۔ وہ چٹان کی طرح ان کے ساتھ کھڑے ہیں اس لئے نہیں کہ انہیں عمران خان کی قیادت اور سیاست پر یقین کامل ہے بلکہ اس لئے کہ آج کل کسی اور جگہ کسی اور جماعت میں ان کی جگہ ہی بن نہیں پا رہی ہے، انہیں پی ٹی آئی کے علاوہ کہیں اور سینگ سمانے کی جگہ میسر نہیں ہے، اس لئے وہ عمران خان کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے رہنے کا بار بار اعلان کر رہے ہیں۔بہرحال کسی کو پسند ہو یا ناپسند شیخ رشید ہماری ملکی سیاست کا ایک نامور کردار اور نام ہے۔ ہماری قومی سیاست کی تمام اچھائیاں اور برائیاں ان میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ پاکستان میں عوامی سیاست کی مجسم تصویر ہیں۔ وہ ہر بات لگی لپٹی کئے بغیر کہہ دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے دوست اور دشمن انہیں دھیان سے سنتے اور دیکھتے ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے حوالے سے پریس کانفرنس کے دوران اسے ’’خونی‘‘ ہونے کا قوی امکان قرار دیا یعنی یہ لانگ مارچ و دھرنا فساد اور قتل و غارت گری پر منتج ہو سکتا ہے۔ شیخ رشید نے مقتدر حلقوں یعنی فوج کو مداخلت کرنے اور خانہ جنگی روکنے کے لئے ’’دعوت‘‘ بھی دے ڈالی ہے۔
ایسی ہی صورتحال 1977ء میںعملاً پیدا ہو گئی تھی۔ نو اپوزیشن پارٹیوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد نے پیپلز پارٹی حکومت کی انتخابی دھاندلیوں کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کرائی تھی جو منصفانہ انتخابات کا مطالبہ کر رہی تھی۔ احتجاجی تحریک میں تشدد کا عنصر بھی شامل ہو گیا تھا۔ بھٹو کے ساتھ قومی اتحاد کے مذاکرات بھی شروع ہو چکے تھے کہ وزیراعظم اچانک ائیرمارشل اصغر خان نے فوج کے افسران کو حکومت کے ناجائز احکامات نہ ماننے کا ایک خط لکھ ڈالا۔گویا اپوزیشن نے اپنی احتجاجی تحریک میں فوج کو مداخلت کی دعوت دے ڈالی تھی پھر ہم نے دیکھا کہ فوج واقعتا ملوث ہو گئی۔ جنرل ضیاء الحق نے 5جولائی 1977ء میں ملک پر مارشل لاء مسلط کر دیا۔ آج بھی صورتحال کچھ ایسی ہی بنتی دکھائی دے رہی ہے۔عمران خان نے 22سال تک اپنے ماننے والوں کی ایک خاص انداز میں ذہنی و عملی ساخت و پرداخت کی اور پھر اپنے 44ماہی دور حکمرانی میں اس شتر بے مہار کلچر کو انتہا تک پہنچایا یہ اس کا نتیجہ ہے کہ اب سیاست میں نفرت و بدکلامی ہی نہیں بلکہ تشدد بھی بکنے لگا ہے۔ عمران خان اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد اور بھی ’’خطرناک‘‘ لگ رہے ہیں۔ انہوں نے رواں مہینے کے آخر میں ’’اسلام آباد چلو‘‘ کی کال دے دی ہے ان کے مطالبات میں سارے مطالبات ایسے ہیں جن کا پورا کرنا بلکہ پورا ہونا قطعاً ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔ ان کے بڑے مطالبات میں فوری الیکشن کا انعقاد اور مبینہ دھمکی آمیز خط کی جوڈیشل انکوائری شامل ہیں۔
جہاں تک تعلق ہے فوری انتخابات کا تو وہ اس لئے بھی فوری طور پر ممکن نہیں ہیں کہ ایسا کرنے کے لئے الیکشن کمیشن تیار ہی نہیں ہے۔ ووٹرلسٹوں کی تیاری اور نظرثانی شدہ سیٹوں کی تقسیم اہم مرحلہ ہے کیونکہ قبائلی علاقوں کے صوبہ سرحد میں شامل کئے جانے کے بعد 8نشستیں کم ہو گئی ہیں اب نئے سرے سے حلقہ بندی ضروری ہے جو قومی اسمبلی کی ابھی تک نہیں ہوئی ہے پھر ایک ہی سانس میں عمران خان چیف الیکشن کمیشنر کو ن لیگی قرار دے چکے ہیں اور ان سے فوری استعفیٰ کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں۔ ان کی کونسی بات مانی جائے۔ اگر الیکشن کمیشنر استعفیٰ دے دیں تو پھر الیکشن کون کرائے گا؟ الیکشن کمیشن تو پہلے ہی مکمل نہیں ہے۔ چیئرمین کے استعفیٰ کے بعد تو بالکل ہی ’’فارغ‘‘ ہو جائے گا اور اگر وہ استعفیٰ نہیں دیتے اور الیکشن ہو جاتا ہے وہ الیکشن کرا دیتے ہیںتو کیا ن لیگی چیف الیکشن کمیشنر کی نگرانی میں منعقدہ الیکشن کے نتائج عمران خان کو قبول ہونگے؟ یہ مطالبات بذات خود ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں اور انہیں پورا کرنا قطعاً ممکن نظر نہیں آرہا ہے پھر خط کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ ویسے ہی ’’نامعقول‘‘ لگتا ہے کہ اس حوالے سے نیشنل سکیورٹی کونسل کا آئینی و قانونی ادارہ موجود ہے ایک ذمہ دار اعلیٰ سطحی پلیٹ فارم کی موجودگی میں جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ ’’نامعقول‘‘اور ’’نامناسب‘‘ لگتا ہے۔
عمران خان کو معلوم ہے کہ وہ جو مطالبات کر رہے ہیں وہ پورے ہونے والے نہیں ہیں اور نہ ہی پورے کئے جانے کے امکانات ہیں اس لئے وہ بڑی تیزی سے بڑی سرعت کے ساتھ عوامی رابطہ مہم کے ذریعے ایک طرف اپنے ماننے والوں میں ری ایکشنری موڈ پروان چڑھا رہے ہیں تو دوسری طرف بھی جوابی نفرت و تشدد کی شدت کے ساتھ اور سرعت کے ساتھ آبیاری کر رہے ہیں۔ وہ اپنے مخالفوں کو بھی للکار رہے ہیں، ابھار رہے ہیں، چتاونی دے رہے ہیں، اکسا رہے ہیں کہ میرے گلے پڑو، مجھ پر حملہ آور ہو جائو، گالی گلوچ کرو، کچھ تو کرو تاکہ جھگڑا ہو، ماردھاڑ ہو، جنگ و جدل ہو اور پھر عمران خان کی خواہشات کے عین مطابق سسٹم لپیٹ دیا جائے کیونکہ عمران خان کی ہٹ دھرمی اور عدم برداشت کے باعث معاملات اسی سمت میں جاتے نظر آرہے ہیں۔تحریک انصاف کے جیالے غصے اور نفرت سے بھرے ہی نہیں پڑے ہیں بلکہ ابل رہے ہیں۔ انہیں پارلیمان میں اپنی شکست ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ وہ زخم چاٹ رہے ہیں۔ وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ اتنی جلدی اور بے عزتی کے ساتھ ایوان اقتدار سے نکال دیئے جائیں گے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ بری طرح ناکام اور نامراد ہو کر اقتدار سے الگ کر دیئے گئے ہیں اور ان کے واپسی کے امکانات (سردست) نظر نہیں آرہے ہیں اس لئے وہ معاملات کو عقل و دلیل کی بجائے دھونس دھاندلی کے ساتھ چلانے بلکہ دوڑانے میں لگے ہوئے ہیں۔ شیخ رشید کا مذکورہ بیان اسی سوچ کا عکاس ہے۔ فوج کو مداخلت کی دعوت دینا قطعاً غیر آئینی و قانونی ہے۔ فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوشش کرنا بھی غیرآئینی و قانونی ہے لیکن شیخ رشید جیسے سیاستدانوں کو اس سے قطعاً کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں یا کیا کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مفادات کے حصول میں مگن ہوتے ہیں اور اپنے مفادات کے حصول کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ غیر آئینی بھی اور غیر قانونی بھی۔ شیخ صاحب کا ماضی اسی کردار کا حامل ہے۔

مصنف کے بارے میں