جنگِ ستمبر…… کس کس واقعے کو یاد کروں؟

Sajid Hussain Malik, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

6ستمبر کو سال یومِ دفاعِ پاکستان منارہے ہیں تو میرے ذہن کے نہاں خانے میں 55، 60سال قبل کے زمانے کی یادیں اور باتیں اس طرح تازہ ہورہی ہیں کہ دل ایک بار پھر اُسی دور میں لوٹنے کو مچلنے لگتا ہے۔ 1965ء کی گرمیوں کے وہ دن مجھے ایسے یاد ہیں جیسے کل کی بات ہو۔ میں اُن دنوں راولپنڈی کینٹ بورڈ کے ایک سکول میں پڑھاتا تھا۔ اُس دور میں عموماً جون وسط سے اگست آخر تک تعلیمی اداروں میں گرمیوں کی تعطیلات ہوا کرتی تھی۔یہ تعطیلات اکثر گاؤں میں گزرا کرتی تھیں۔ یکم ستمبر کو گاؤں سے پنڈی آنا ہوا تو پتہ چلا کہ پاک بھارت تعلقات میں پچھلے کئی ماہ سے شدید کشیدگی اور جنگ کے خطرے کے پیشِ نظر تعلیمی اداروں میں چھٹیوں کو بڑھا دیاگیا ہے۔ اُسی شام یعنی یکم ستمبر 1965ء کی شام کو مجھے پنڈی چھاؤنی کے علاقے مریڑ حسن میں جانا تھا۔ میں پیدل سرور روڈ پر پنڈی سٹیشن ہیڈکوارٹر اور لاگ ایریا ہیڈ کوارٹر کے سامنے سے گزرا  تو اندھیرا اور بڑی خاموشی نظر آئی۔ جیسے یہ عمارات خالی ہوں۔ جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ یہاں موجود فوجی جنگ کے خطرے کے پیشِ نظر پاک بھارت سرحد پر اگلے مورچوں پر بھیج دیئے گئے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد رات 8بجے ریڈیو پاکستان سے قومی نشریاتی رابطے پر اُردو خبروں کا وقت ہو گیا۔ اُس دور میں مغربی پاکستان کے وقت کے مطابق رات 8بجے سے 8:15تک اور مشرقی پاکستان کے وقت کے مطابق رات 9بجے سے 9:15تک قومی نشریاتی رابطے پر اُردو خبریں پڑھی جایا کرتی تھی۔ اُس کے بعد 15منٹ کے لیے انگریزی خبروں کا وقت ہوتا تھا۔ مریڑ حسن میں سڑک کے کنارے موجود پان،سگریٹ کی دکان کے سامنے کھڑے کچھ اور لوگوں کے ہمراہ میں نے اُردو خبریں سنیں۔ ریڈیو پاکستان کے مایہ ناز نیوز ریڈر شکیل احمد مرحوم کا خبریں پڑھنے کا ایک مخصوص انداز تھا۔ انھوں نے جب اپنی آواز کے زیرِ و بم کو خبروں کے الفاظ کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے بتایا کہ آج پاکستان کے مسلح دستوں نے چھمب جوڑیاں سیکٹر میں سیز فائر لائن کو پار کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں پیش قدمی شروع کر دی ہے۔ بھارتی افواج کو برُی طرح پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ہمارے فوجی دستے  چھمب سے آگے بڑھتے ہوئے جوڑیاں اور دریائے قوی کے کنارے پر پہنچ گئے ہیں اور دشمن کا بہت سارا جنگی ساز و سامان ہمارے قبضے میں آیا ہے۔ یہ سننا تھا تو ہم خبریں سننے والوں کی زبانوں پر بے ساختہ پاکستانی فوج زندہ باد کے نعرے بلند ہو گئے اور پھر وہاں موجود ہم لوگوں کے جوش و جذبے کی انتہا نہ رہی جب مرحوم شکیل احمد نے پورے جوش و جذبے کے ساتھ یہ بتایا کہ 6بھارتی طیارے جو پسپائی اختیار کرتے ہوئے اپنے فوجی دستوں کی مدد کے لیے آئے تھے ان میں سے دو کو فضا میں موجود ہمارے جنگی طیاروں نے اپنی مشین گنوں کا نشانہ بنا لیا جب کہ باقی چارطیارے دم دبا کر بھاگ گئے۔ 
یکم ستمبر 1965ء کو مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی مسلح دستوں کی پیش قدمی اور دو بھارتی لڑاکا طیاروں کا گرایا جانا اس بات کی علامت تھی کہ بھارتی پاکستان کے خلاف کسی بڑی فوجی کارروائی سے دریغ نہیں کریں گے۔ اُن کا وزیراعظم لال بہادر شاستری کچھ ہی ماہ پہلے رن آف کچھ میں پاکستانی فوجی دستوں کے مقابلے میں بھارتی فوجی دستوں کی پسپائی اور شکست کے بعد یہ اعلان کر چکا تھا کہ وہ پاکستان سے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے اپنی مرضی کا محاذ کھولے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں چھمب جوڑیاں سیکٹر میں پاکستانی فوجی دستوں کی پیش قدمی جاری رہی اور وہ سیالکوٹ کے شمال مشرق میں بھارت کے شہر پٹھان کوٹ سے مقبوضہ کشمیرمیں جموں تک جانے والی شاہراہ کے اہم مقام اکھنور تک جا پہنچے۔ اب بھارت کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ پاکستانی فوجی دستوں کی مقبوضہ کشمیر میں پیش قدمی کو روکنے کے لیے پاکستان کے خلاف کسی بڑے جنگی محاذ کا انتخاب کرے۔ چنانچہ5 اور 6 ستمبر 1965 ء کی درمیانی رات کو بھارت نے واہگہ سرحد پا ر کر کے پاکستان پر حملہ کر دیا۔بھارتی جرنیلوں کا خیال تھا کہ وہ 6ستمبر کی شام تک لاہور پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔اسی بناپر بھارتی کمانڈر انچیف جنرل 
چوہدری نے 6 ستمبر کی شام کو جمخانہ کلب لاہور میں فتح کا جشن منانے کا اعلان کر رکھا تھا لیکن اُسے منہ کی کھانا پڑی  اور ہمارے جانباز دلیری، بہادری، جانثاری اور سرفروشی میں اپنی مثال آپ ثابت ہوئے یہاں تک کہ اُس کی سپاہ 23 ستمبر کو جنگ بندی کے اعلان تک بی آ ربی نہر کے اُس کنارے سے ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکی۔  
6 ستمبر کی صبح7بجے کی خبروں میں لاہور پر بھارتی حملے کی خبر سنائی گئی۔ میں نے یہ خبر گاؤں میں اپنے کچھ احباب کے ساتھ سنی۔ اسی دوران مجھے یاد ہے کہ طیاروں کی گھڑ گھڑاہٹ کی آواز سنائی دی فضا میں نظریں گھمائیں تو دیکھا کہ کم از کم 6طیاروں کی ایک ٹکڑی تیز رفتاری سے مغرب سے مشرق کی طرف محو پرواز تھی۔ غالباً یہ ہماری فضائیہ کے لڑاکا سیبر طیارے تھے جو لاہور کے محاذ پر اپنے مسلح دستوں کو کمک پہنچانے اور لاہور کے مشرق میں بی آر بی نہر کے اُس کنارے پر دشمن کے ہر اول دستوں کو تباہی سے دو چار کرنے کے لیے تیزی سے اُڑے جا رہے تھے۔ اُس دور میں ریڈیو ہی خبروں کا بڑا ذریعہ ہوتا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد ریڈیو پر بتایا گیا کہ جلد ہی صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان قوم سے خطاب کریں گے۔ گیارہ بجے صدرِ مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کومعلوم نہیں کہ اُس نے کس قوم کو للکارا ہے، دس کروڑ پاکستانیوں کے سینے قرآن کے نور سے منور ہیں تو ان الفاظ میں ایک جادو تھا، ایک ایسا اثر تھا کہ پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند دُشمن کے مقابلے میں اُٹھ کھڑی ہوئی اور اُس نے ایسی یکجہتی، اتحاد و اتفاق، عزم و حوصلے اور ایثار وقربانی کا مظاہرہ کیا کہ دُشمن کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔ لاہور کے محاذ پر 6 ستمبر کی رات اندھیرے میں اچانک اور چوری چھپے حملے کی وجہ سے دُشمن کو کچھ ابتدائی کامیابی ضرور حاصل ہوئی لیکن اس کے بعد 17 دنوں تک وہ آگے بڑھنے کی کوشش میں سر پٹختا رہا اور بی آ بی نہر کے اس کنارے پر متعین جنرل سرفراز کا دسواں ڈیژن اس کے راستے میں سدسکندری بن کر حائل رہا۔
بر کی کے محاذ پر میجر عزیز بھٹی شہید کی داستان ِشجا عت کو کون بھلا سکے گا اپنی کمپنی کی مختصر نفری کے ساتھ وہ دشمن کی اپنے سے کئی گنا بڑی تعداد کے مقابلے میں کئی دنوں تک سینہ سپر رہے اور دشمن کی پو زیشنوں پر اپنی توپوں کی ایسی صحیح نشانوں پر گو لہ باری کرا تے رہے کہ دشمن بو کھلا اٹھا با لآخر وہ دشمن کی توپ کی گولی کا نشانہ بنتے ہو ئے شہا دت سے ہمکنا ر ہوئے اور نشان حیدر کا اعلیٰ اعزاز حا صل کیا۔ سیالکوٹ کے محاذ پر دُشمن اپنے فرسٹ آرمڈ ڈویژن ”فخرِ ہند“ کی ٹینک رجمنٹوں کی پوری قوت کے ساتھ اس اُمید پر حملہ آور ہوا تھا کہ وہ گوجرانوالہ تک ہر چیز کو روندتا ہوا لاہور کے عقب میں جی ٹی روڈ پر جا پہنچے گا لیکن ہمارے ایک انفنٹری بریگیڈ نے تین دن تک فخرِ ہند کی ٹینک رجمنٹوں کو چونڈہ ریلوے اسٹیشن کے اس طرف آگے نہ بڑھنے دیا اور یہ مشہور ہو ا تھا کہ ہمارے جانباز سینوں پر بم باندھ کر دُشمن کے ٹینکوں کے سامنے لیٹتے رہے اس دوران ہماری ٹینک رجمنٹیں دُشمن کے مقابلے میں پہنچ گئیں اور چونڈہ کا میدان دُشمن کے ”فخر ہند“ ڈویژن کے شرمن ٹینکوں کا قبرستان بن گیا اور اُس کا آگے بڑھنے کا منصوبہ ایک ڈراؤنے خواب کا روپ دھار گیا۔ قصور سیکٹر میں ہمارے بکتر بند دستے بھارتی سرحد کے اندر کھیم کرن کے قصبے تک جا پہنچے تو دُشمن نے مادھوپور نہر کا پشتہ توڑ دیا جس کی وجہ سے ہمارے ٹینکوں کی پیش قدمی رُک گئی ورنہ فیروز پور تک کا بھارتی علاقہ فتح کرنے سے ہمیں کوئی روک نہیں سکتا تھا۔ راجستھان کے محاذ پر بھی ہماری پیش قدمی جاری رہی اور کھوکھرا پا ر کے مونا باؤ ریلوے سٹیشن تک کئی ہزار مربع میل کا بھارتی علاقہ ہمارے قبضے میں آ گیا۔
ستمبر 1965 کی جنگ میں ہماری فضائیہ اور بحریہ کی کارکردگی بھی ہر لحاظ سے قابلِ فخر رہی بھارتی فضائیہ کے نٹ، مسٹئیر، ہنڑ لڑاکا اور کینبرا بمبار طیارے شروع کے ایک دو دن پاکستان کی فضاؤں میں بڑھ چڑھ کر حملہ آور ہوئے لیکن 7 ستمبر کی صبح سرگودھا کے ہوائی اڈے پر حملہ آور بھارتی طیاروں کو سکوارڈن لیڈر ایم ایم عالم نے اپنے سیبر طیارے کی مشین گنوں کا نشانہ بنایا اور چند سیکنڈ کے وقفے میں پانچ بھارتی حملہ آور طیاروں کو مار گرایا تو پھر بھارتی طیاروں کو دن کی روشنی میں پاکستانی اڈوں کا رُخ کرنے کی جرأت نہ ہو سکی۔ بھارتی فضائیہ کے اہم مراکز پٹھان کوٹ، انبالہ، جام نگر، آدم پوراور ہلواڑہ ہمارے F-86 سیبر، F-104 سٹار فائٹر اور B-57 بمبار طیاروں کا خاص طور پر نشانہ تھے اور ریڈیو پاکستان کے سینئر نیوز ریڈر شکیل احمد جن کا خبریں پڑھنے کا ایک خاص انداز تھا اپنے مخصوص لہجے اور بلند آواز میں خبروں میں جب بتاتے کہ ہمارے شاہینوں نے دُشمن کے ہوائی اڈوں، ہلواڑہ، آدم پور اور جام نگر پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے ہیں تو ریڈیو کے گرد بیٹھے خبریں سننے والوں کی زبانوں پر بے ساختہ اللہ اکبر کے نعرے بلند ہو جایا کرتے تھے۔جنگ ستمبر کے دوران دشمن کے سو سے زیا دہ طیا رے تبا ہ ہو ئے جبکہ ہما را نقصان اس کے مقابلے میں پا نچو یں حصے سے بھی کم تھا۔
بھارتی بحریہ اگرچہ ہماری بحریہ کے مقابلے میں کئی گنا بڑی تھی لیکن پوری جنگ ستمبر کے دوران اُس کے تباہ کن لڑاکا بحری جہاز ہماری واحد آبدوز ”غازی“ کے ڈر سے اپنی گودیوں میں دبکے رہے اور گجرات کاٹھیاواڑ کے ساحل پر قدیم سومنات کے مندر کے قریب واقع بھارتی بحری اڈہ ”دوارکا“ ہماری بحریہ کا نشانہ بنا اور اُس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ جنگ ِ ستمبر کے یہ چیدہ چیدہ حالات و واقعات ایسے ہیں جن پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں بھارت کی طرف سے اگرچہ اپنی کامیابیوں کے دعوے کیے جاتے رہے ہیں اور شاید اُسے کچھ کامیابی حاصل بھی ہوئی ہو لیکن اس کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ اُس نے پاکستان کو شکست دینے یا تاراج کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا وہ بُری طرح ناکام ہوا۔ ہم بجا طور پر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہمیں بھارت کے مقابلے میں اگر کوئی بڑی فتح حاصل نہیں ہوئی تھی تو ہمیں کسی ناکامی کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ پاکستان اور پاکستان کی مسلح افواج نے انتہائی کم وسائل اور کم تعداد میں ہو نے کے  باوجود دُشمن کو پسپائی پر مجبور کیاتھا…… افواجِ پاکستان زندہ باد!