سیلاب، معاشی بحران اور حل

سیلاب، معاشی بحران اور حل

پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب تھی اوپر سے تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کی وجہ سے ملک کا بڑا حصہ پانی میں گھرا ہوا ہے، آنے والے کئی سال معیشت کو بہتر کرنے میں لگ جائیں گے، سطح غربت سے نیچے پہلے ہی 8 کروڑ لوگ تھے جن میں اب مزید اضافہ ہوجانے گا، بہرحال اگر میں یہ کہوں یہ سودی معیشت کی وجہ سے ہر طرف ملک مشکلات کا شکار ہے۔ مون سون جو کہ پچھلے 30 سال میں ہونے والی بارشوں سے 600 فیصد زیادہ ہے اور ان بارشوں کی وجہ سے جن سیلابی ریلوں کا آغاز ہوا ان میں بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب کے کئی اضلاع لپیٹ میں آ گئے۔ ملک کی تاریخ میں سیلاب کی تباہی 2010ء میں بہت زیادہ ہوئی تھی لیکن ان سیلابوں کی تباہ کاری پہلے والے سیلاب سے بہت زیادہ ہے۔ بلوچستان میں 31 اضلاع سندھ میں 23 خیبر پختون خوا میں 9 اور جنوبی پنجاب میں 3 اضلاع سیلاب کی تباہ کاری کا شکار ہوئے ہیں، 16 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے۔ 116 اضلاع جزوی طور پر سیلاب کی زد میں آئے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق مجموعی طور پر تین کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ آبادی اس قدرتی آفت سے متاثر ہونے کا تخمینہ ہے۔
سیلاب سے تقریباً 1,290 لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں، ہزاروں لوگ زخمی ہیں۔ تقریباً 5 لاکھ گھر مکمل تباہ ہو گئے ہیں۔ غریب لوگوں کے مال مویشی سیلاب کے ریلوں کے ساتھ بہہ گئے اور اندازاً 8 لاکھ کے قریب بہتے پانی کے ریلوں کی نذر ہو گئے۔ 3 ہزار کلومیٹر کے قریب سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں اور راستے بند ہو چکے ہیں۔ جو پْل لوگوں کو جوڑنے کے کام آتے تھے اور دریاؤں اور نالوں کے پار جانے کے لیے استعمال ہوتے تھے وہ تقریباً 145 پْل ڈوب چکے ہیں یا تباہ ہو گئے ہیں اب لوگ جہاں کہیں تھے وہاں سے نکل نہیں سکتے۔ 15 ہزار سکول سندھ میں، 544 بلوچستان میں، 12 سو پنجاب میں تباہ ہو گئے ہیں۔ 
سیلاب کے ان تباہ کن اثرات میں سب سے دور رس اثر ہماری زراعت پر پڑا ہے۔ پاکستان جس کی معیشت 21 فیصد جی ڈی پی زراعت پر منحصر ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً 45 فیصد ملازمتیں بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت سے جڑی ہوئی ہیں اور 60 فیصد برآمدات زراعت پر مبنی اشیاء سے جڑی ہیں۔ حالیہ سیلابوں سے اندازاً 20 لاکھ فصلیں اور زمینیں متاثر ہوئی ہیں۔ سندھ میں 15 لاکھ ایکڑ زمین، بلوچستان میں 3.5 لاکھ اور پنجاب میں 1 لاکھ 80 ہزار کے قریب رقبہ سیلاب سے تباہ ہو گیا ہے۔ اس رقبے پر لگی ہوئی فصلوں میں 2.5 ملین ٹن چاول، 7.5 ملین ٹن گنا، 0.7 ملین ٹن کاٹن اور 0.3 ملین ٹن مکئی سیلاب کے پانی سے تباہ ہو گئے ہیں اور اگلی فصل لگانے کے لیے بھی کسانوں کو زمین تیار کرنے میں بہت وقت لگے گا، جس کی وجہ سے ملک میں غذائی بحران کا بھی اندیشہ ہے۔ چھوٹی فصلیں یعنی سبزی اور کھجور بھی سیلابی پانی سے متاثر ہوئے ہیں۔ فصلوں کی تباہی سے جہاں غذا کی قلت پیدا ہو گئی وہیں دوسری طرف کھانے پینے کی جو اشیاء موجود ہیں ان کی قیمتوں میں انتہائی اضافے کی توقع ہے اس وقت حکومت کو عام لوگوں کو خوراک کی قلت سے بچانے کے لیے ہمسایہ ملکوں سے درآمد کی ضرورت ہے۔ 
پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو ملک کی جی ڈی پی کا 50 فیصد زراعت پر مشتمل تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ غلط زرعی پالیسی اور کاشت کاری کو دنیا کے جدید اصولوں پر نہ چلانے کی وجہ سے ابھی آدھا ہو گیا ہے۔ پاکستان موسمیاتی ماحولیاتی چیلنج سے متاثر ہونے والے ملکوں میں سے ایک ہے اور حالیہ سیلاب اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر ہم نے نئی ٹیکنالوجی اور ٹریننگ میں سرمایہ کاری نہ کی تو اس چینج کے اثرات کی وجہ سے زراعت پر منحصر جی ڈی پی 5 فیصد پر بھی جا سکتا ہے۔ اس وقت جہاں حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے لوگوں کو وہاں سے نکالنا اور محفوظ جگہوں پر چھت مہیا کرنا ہے وہاں پر آنے والے دنوں میں غذائی قلت سے بچنے کیلئے فوری اقدامات ہیں۔ حکومت میں نقصانات کا تخمینہ 10 بلین امریکی ڈالر لگایا ہے۔ پاکستان میں سیلاب سے پہلے تقریباً 8 کروڑ لوگ سطح غربت کے نیچے کی زندگی گزار رہے تھے جس میں مزید اضافہ ہوگا۔
پاکستان کی معیشت سے پہلے ہی دیوالیہ ہونے کے قریب تھی، سیلاب کی وجہ سے مزید 10 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے مشترکہ جدوجہد کی جائے، مہنگائی کی شرح کے مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ حکومت وقت کو ضروری اور فوری اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ وطن عزیز میں سیلاب زدہ علاقوں کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکے، زراعت میں بہتری کے لئے سستے بیج، کھاد اور بجلی کی فراہمی، سیلاب کے پانی کی وجہ سے زمین زیادہ پیداوار دیتی ہیں اگر فوری طور پر کسانوں کو یہ مراعات دی جاتی ہیں تو اگلے سال ہماری فصلیں پیداوار زیادہ دیں گی۔ بلند شرح سود جو معاشی ترقی کی راہ میں حائل ہے اس کو ختم ہونا چاہئے، پانی کی فراہمی کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے اسے فوری بحال کیا جائے، سیلاب زدہ علاقوں کو ٹیکس فری زونز قرار دینا چاہئے، اور ان علاقوں کے لئے بجلی کے ٹیرف کو کم کر دینا چاہئے، ملکی اور غیر ملکی امداد سے ادویات اور خوراک کا فوری انتظام ضروری ہے، چھوٹے کسانوں کو جن کی زمین 30 ایکڑ سے کم ہے ان کے قرضے معاف کرنے چاہئیں اور حکومت کے ساتھ مل کر سب سٹیک ہولڈرز کو دنیا کی توجہ ہمارے ملک پر آئے ہوئے اس بھیانک ڈیزاسٹر کی طرف کرانی چاہیے تاکہ پاکستان میں جلد از جلد ہنگامی بنیادوں پر امداد مہیا کی جائے۔ جو قرض ادا کرنا ہے تمام ممالک سے اس کو ختم یا کم کرنے کی بات کی جائے، ایکسپورٹ کے لئے خام مال جو درآمد کیا جاتا ہے سیلاب زدہ علاقوں کے لئے خام مال پر ٹیکس کو ختم کیا جائے۔

مصنف کے بارے میں