حالیہ دہشتگردی کی37 سال پرانی منصوبہ بندی( آخری حصہ)

حالیہ دہشتگردی کی37 سال پرانی منصوبہ بندی( آخری حصہ)

خود پشتونوں اور بلوچوں کے لیے اچھا نہیں تھا ضیاءکے بعد کسی بھی حکومت نے انکا ڈیٹا بیس مرتب نہیں کیا اور پھر بےنظیر بھٹو برس اقتدار آئیں انکو ضیاءالحق سے نفرت تھی ضیاءکی زیادہ تر پالیسیوں سے یو ٹرن لے لیاگیا۔میں نے اپنے بچپن کے دنوں میں دیکھاکہ جہادیوں کو اس قدر آزاد ماحول ملک چکا تھا کہ پورے پاکستان میں کشمیر اور افغانستان نام چندہ اکٹھا کیا جاتا اور اپنی مرضی کی جگہوں پر لگایا جاتا،مولویوں نے بھی پیسے کی ریل پیل اپنی سیاست پر خرچ کی یہ ایک طرح کا بھتہ مافیا بن چکا تھا۔

افغانستان میں امریکی مفادات عارضی طور پر پورے ہو چکے تھے ،ضیاءکی موت نے ہر چیز پر فل سٹاپ لگا دیا تھا اور یہی امریکیوں کا مقصدتھا۔روس کو شکست دینے کے لیے جس قدر جوش وجذبے کا مظاہرہ کیا گیا۔ انہی افغانوں کے سب نے بے یارومدگار چھوڑ دیا ۔ امریکی سفیر سمیت ضیاءالحق کی موت ایک بہت بڑا معمہ ہے جو شاید کبھی حل نہ ہو۔
ضیا کی مخالفت کرنے والوں اسکو امریکی جہاد کی نرسریوں کا نام دیا تھا۔اسکے بعد 9/11اس قدر حیرت انگیز حادثہ تھا کہ امریکا نے کسی کو بھی سوچنے سمجھنے کا موقعہ ہی نہیں دیا افغانستان پر حملہ کر دیاجنرل مشرف کے پاس انکار کی گنجائش نہیں تھی،افغانستان پر امریکی حملے نے پوری دنیا کے رخ کو تبدیل کر دیا امریکی حملہ کہنے کو تو القاعدہ کے خلاف تھا مگر اسکا نشانہ طالبان تھے امریکا نے پرانے جہادیوں کو چن چن کر خاتمہ کیا روس کی طرح امریکا اکیلا نہیں بلکہ نیٹو اتحاد کی چھتری تلے یہ حملہ کیا گیاساری دنیا کو القاعدہ کا راگ الاپنے لگی۔

جنرل ضیاءکی جنرل مشرف بھی اقتدار کے شوق میں مبتلا تھے اسی اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے وہ مختلف حربے استعمال کرتے رہے جس میں سے ایک دہشت گردی کا راگ الاپنا تھا،سب کو یہ معلوم ہے پاکستان کے قبائلی علاقے افغان جنگ کو ایندھن مہیا کرتے رہے ہیں 2004میں جنرل مشرف نے اسی کی تدارک کے لیے قبائلی علاقو ں میں فوج روانہ کی اس کے علاوہ پاک فوج اور مولوی نیک محمد کے درمیان امن معاہدے کو ڈرون حملے کے ذریعے ختم کیا گیا،جنگ کے آغاز پر ہی افغان سفیر کو عالمی قوانین کے برعکس گرفتار کرنے کے بعد امریکیوں کے حوالے کر دیا گیا،پاکستان سرزمین افغانوں کے خلاف لاجسٹک مدد کے لیے استعمال ہو رہی تھی۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام ک خلاف من گھڑت رپورٹس پھیلائی گئیں کشمیر میں مسلح جدوجہد کا خاتمہ ہو گیا،یہ ہی وہ وقت تھا جب بھارت نے افغانستان کی حامد کرزئی اور بعد اشرف غنی کے ساتھ تعلقات کو بڑھاوا دیا 80اور90، کی دہائی کا بدلہ لینے کا وقت آچکا تھا خودکش حملوں نے پاکستانی کی ذہنی حالت تباہ کر دی تھی۔اب معاشرہ بھی بدل رہا تھا،جنرل مشرف کے دور میں میڈیا آزاد تو ہوا مگر یہ آزادی کنٹرول میں تھی،فوج کو عوامی مقامات پر جانے سے اجتناب کرنے کا کہا گیا،مشرف اپنا سیکولر چہرہ دیکھانے میں مصروف رہے مگر امریکیوں کی عملداری میں بے جاہ اضافہ کر گئے تھے۔القاعدہ ختم ہوچکی تھی مگرامریکا کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہاں رونلڈ ریگن سے جہادیوں کی ملاقاتیں اور کہاں پاکستان کی قیادت سے ملنے کے لیے صرف ایک سیکرٹری کے عہدے کا عہدیدار کافی تھا،ہم کافی نیچے آچکے تھے۔جنرل راحیل شریف نے قبائلی علاقوں کی صفائی کا کام شروع کیااور اس مقصد کے لیے دن رات ایک کیا خاص طور پر آرمی پبلک سکول حملے نے ملکی قیادت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ادھر پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانے کا اعلان کرنے کی دیر تھی دہشت گرد گویا ایسے ہی کسی اعلان کے انتظار میں بیٹھے تھے چاروں صوبوں میں دھماکے کئے گئے،یہ انکی کی طرف ایسا اعلان تھا کہ دہشت گرد پورے پاکستان میں اپنی موجودگی ثابت کرنا چاہتے تھے۔یہ بات جھوٹ پر مبنی ہے کہ یہ لوگ اسلام کا نظام پھیلانا چاہتے ہیںاب ایسی کسی بات کو وجود نہیں ہے،مقصد صرف پاکستان کو ناکام ریاست کے طور پر دیکھانا ہے،یہ کیسے دہشت گرد تھے جن کو کراچی میں کھڑے اورین طیاورں کی اہمیت کے بارے میں بھی پتا تھا،یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے بھارت افغان حکومت کو پاکستان کے خلاف کھل کر استعمال کر رہا ہے اور امریکی اس معاملے پر خاموشی کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔اس خطے میں ایک نہایت خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے جس کا ایک مقصد نہیں ہے۔افغان حکومت طالبان کے ہاتھوں تنگ رہے گی بھارت پاکستان کو تنگ کرنے کے لیے افغانو ں کو استعمال کر کے دہشت گردی کروارہا ہے،ایٹمی طاقت کے ساتھ مسلسل اس طرح کی چھیڑ چھاڑ خطے کو بھیانک تصادم کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
چین نے جنوبی چین کے مسائل سے نمٹنے کے لیے راہدای منصوبہ تشکیل دے رہا ہے ،بھارت اقتصادی راہداری ہضم نہیں کر پا رہا اور امریکا چین کے مقابلے کے لیے خطے میں بھارت کو طاقتور دیکھنا چاہتا اسکے لیے بھارت امریکا تعلقات میںنئی تبدیلیاں آرہی ہیں۔سی پیک خطے میں پاکستان کو ایک طاقت ور کردار فراہم کر دے گا ابھی کے سارے مسائل کا تعلق اقتصادی راہداری سے ہے۔

امریکا اور بھارت کے لیے اس راہداری میں زیادہ مفاد وابستہ نہیں ہے۔پاکستان کو فی الحال افغانستان کی موجودہ حکومت سے سختی سے پیش آنا ہو گا کچھ دیر کے لیے تعلقات میں رکاوٹ بھی آئے تو ایسا ہمیں برداشت کرنا ہو گا، دہشت گردی میں ملوث افغان مہاجرین کو کسی بھی قسم کی رعایت نہ دی جائے، مگر عام مہاجرین کے ساتھ برا سلوک بھی نہیں ہونا چاہیئے۔افغان سرحد پر طاقتور سرحدی نظام آنے والے دور میں پاکستان کو فائدہ دے گا۔یہ سب اُس صورت میں ہو گا جب پاکستان کے اندر ایک طاقت ور حکومت قائم ہو گی اور پاک فوج اور جمہوری حکومت پاکستان کے مفا د کے معاملات ایک صفحے پر ہوں۔

مصنف کے بارے میں

عبدالرئوف بلاگر اور کالم نگار ہیں