غم کافرشتہ

Dr Zahid Munir Amir, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

حافظ نے کہاتھا میری زندگی کا حاصل غم کے سواکچھ نہیں، عشق میں کوئی نیکی بدی غم کے سوانہیں، میںنے درد سے بڑھ کرکوئی وفاشعاردوست نہیں دیکھااورغم سے بڑھ کر کوئی مونس و غمخوار نہیں دیکھا…
من حاصل عمرخود ندارم جز غم
در عشق زنیک وبد ندارم جز غم
یک ہمدم باوفاندیدم جزدرد
یک مونس نامزد ندارم جزغم
یہی نہیں جب شاعرسے ناصح نے کہاکہ عشق میں غم کے سواکوئی کما ل نہیں تو اس نے جواب دیاتھا کہ اے ناصح محترم آپ اپنا راستہ لیجیے ،میرے نزدیک تو غم سے بڑھ کر کوئی کما ل، وجودہی نہیں رکھتا۔غم بھی گزشتنی ہے خوشی بھی گزشتنی اس لیے شاعر کی نصیحت ہے کہ’’ کر غم کو اختیارکہ گزرے تو غم نہ ہو‘‘… روم میں غم کی یہ داستان، غم کے فرشتے نے یاددلائی ۔غم کا فرشتہ(Angel of Grief ) دراصل ایک قبرپر گریہ کناں فرشتے کا مجسمہ ہے جو اپنے پر پھیلائے، منہ کے بل قبرپر پڑاہے ۔ایک قبرکا یہ عجیب و غریب منظر،سٹوری کی تخلیق ہے ۔جی ہاں نام ور فن کاراورمجسمہ سازWilliam Wetmore Story (1819-95)کابنایاہوا مجسمہ جو ا س نے اپنی محبوب بیوی کی یادمیں اس کی قبرپر بنایا ۔ یہ قبر روم کے پروٹسٹنٹ قبرستان میں واقع ہے ۔قبرکیاہے پورا فن پارہ ہے اور اس فن پارے کاپورا نام زندگی کے خاتمے پر روتاہوا غم کا فرشتہ (The Angel of Grief Weeping Over the Dismantled Altar of Life.) ہے ۔غم کا یہ فرشتہ اتنا متاثرکن ہے کہ دنیاکے بہت سے فن کاروں نے اس کی تقلید کرنے کی کوشش کی ہے۔ نیویارک، کیلیفورنیا، پنسلوینیا، ہیوسٹن ٹیکساس وغیرہ میں ایک سے بڑھ کر ایک غم کے فرشتے ہیں جو اپنی اپنی محبوب ہستیوں کی قبورپر سرجھکائے گریہ کناں ہیں ۔ سٹوری کا یہ فرشتہ ان سب کی اصل ہے اور اس کے سامنے باقی سب ماند ہیں ۔یہ قبرستان، جہاں غم کا فرشتہ سٹوری کی اہلیہ ایمیلی کی قبرپراپنے پرگرائے اوندھے منہ گریہ کناں دیکھاجاسکتاہے ،عجیب و غریب ہستیوں کی آخری پناہ گاہ ہے ۔یہاں جان کیٹس بھی ہے اور پی سی شیلے بھی ۔پچیس سالہ کیٹس کی قبرپرجو کتبہ لگاہے اس پر اس کانام تونہیں البتہ اس کے دودوستوںکی زبانی جوان مرگ شاعر کایہ پیغام کندہ ہے  Here lies one whose name was writ in water.’’یہاں وہ دفن ہے جس 
کانام پانی پر لکھا گیا‘‘۔مجھے مدتوں بعد کیٹس کی لوح مزارپر ثبت اس جملے سے آشنائی ہوئی لیکن اس سے بہت پہلے میں یہ کہہ چکاتھا :
ریت پرنام لکھا …/تیز ہوائوں نے کہا:/نام جو دل پہ لکھاتھا/کبھی پانی میں بہا/ اور صدف تک پہنچا/آسمانوں پہ گیا /اور ستاروں نے اسے/چوم کے دل میں رکھا/قطرئہ آب بنا/اور سحابوںنے اسے/کشت زاروں میں بکھیرا/تواسے روپ ملا/سبزہ و گل میں ڈھلا /پھول گیا ،پھیل گیا…/ریت پرنام لکھا۔
نام پانی پر لکھاگیاہویا ریت پر ہوائوں کے سنگ اُڑجانااس کا مقدر ہے۔ ستاروں زمین، پانیوں اور بلبلوں کی باتیں کرنے والے کیٹس کو ڈاکٹروں نے روم جاکررہنے کا مشورہ دیاتھاانھیں اندیشہ تھاکہ کہیں لندن کی سردی اسے مارہی نہ ڈالے لیکن وہ تو ہمارے غالب کے بہ قول غضب کا مغل بچہ ثابت ہواجس فینی پر مرتاتھااسے اپنانہ سکاتو مررہا ۔اب روم کا’’کیٹس شیلے ہائوس‘‘ اس کی زندگی کے آخری دنوں کی یادوں سے بھراپڑاہے ۔   
پروٹسٹنٹ مسیحیوں کے اس قبرستان کے قریب ہی روم کی وہ فصیل شہرہے جس کانام  ،فصیل زریں Aurelian Walls ہے جب یہ فصیل تعمیرنہیں ہوئی تھی توحدودشہرکے باہر رومیوںنے ایک اہرام بھی تعمیرکیاتھا۔دنیابھرکے اہراموں کے جد اعلیٰ تو مصری اہرام ہیں جو پانچ ہزاربرس سے جیزہ میں کھڑے وقت کو شکست دینے میں مصروف ہیں ۔رومیوں نے جب مصر فتح کیاتو انہی اہرامات سے متاثرہوکرانھوںنے بھی اپنے ہاں اہرام تعمیرکیالیکن یہ اہرام ویٹی کن کے قریب تھا۔ اسے رومولس کا اہرام قراردیاگیا ۔جی ہاں رومولس جو رومولا بھائیوں میں سے ایک تھا۔وہ اساطیری کردارجو روم کے بانی قراردیے جاتے تھے ، ،وہ زمانہ جب روم کانام روم نہیں بلکہ لیٹیم ویٹسLatium Vetusتھا ۔
روم کا وہ اہرام جو آج بھی دیکھاجاسکتاہے سیسٹیس کا اہرام Pyramid of Cestiusہے۔یہ اہرام اٹھارویں سے بارھویںصدی قبل مسیح کی یادگارہے ،چونکہ ویٹی کن کے قریب کا اہرام رومولس کا مقبرہ سمجھاجاتاتھا اس لیے لوگوںنے اس اہرام کو اس کے بھائی ریمس کا مقبرہ سمجھناشروع کردیا۔اہراموں کی روایت کے مطابق یہ بھی ایک مقبرہ تھالیکن ریمس کا نہیں بلکہ ایک بڑے رومی جرنیل کامقبرہ ۔ویٹی کن کے قریب تعمیرکیاجانے والا اہرام توفقط سولھویں صدی عیسوی تک مروروقت کامقابلہ کرسکالیکن سیسٹیس کا اہرام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ کھڑاہے ۔
یہ اہرام جب تعمیرکیاگیاتو اس وقت روم کا حصار Servian Wallتھی ۔چوتھی صدی قبل مسیح میں تعمیرکی گئی یہ دیوار گیارہ کلومیٹرلمبی، دس میٹر بلنداور اپنی بنیادمیں بارہ میٹر چوڑی تھی ۔سیسٹیس کا اہرام اس فصیل کے باہر تعمیرکیاگیا لیکن جب صدیوںبعد شہرکی نئی فصیل تعمیرکی گئی تویہ اہرام جوفصیل شہرسے باہرتھا فصیل کے اندرآگیا ۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں تعمیرہونے والی یہ نئی فصیل ،فصیل زرّیں Aurelian Walls کہلاتی ہے ۔سیسٹیس کے اہرام پر ٹامس ہارڈی نے ایک نظم لکھی تھی ۔کیاحرج ہے اگراہرام کے ذکرکے ساتھ ٹامس ہارڈی کے احساس کو بھی یادکرلیاجائے  ہارڈی نے اپنی نظم کے آخرمیں کہاتھا…
--Say, then, he lived and died
That stones which bear his name
Should mark, through Time, where two immortal Shades abide;
It is an ample fame.
ہم نے بات غم کے فرشتے سے شروع کی تھی۔ولیم ویٹمور سٹوری نے اپنی محبوب بیوی ایمیلی کی یادمیں تعمیرکی گئی یادگارکے بارے میں کہاہے کہ چہرے کو چھپائے ،سرکوجھکائے اور پروں کوپھیلائے مکمل خودسپردگی کے عالم میںسجدہ ریز ،غم کا یہ فرشتہ میرے جذبات و احساسات کی نمائندگی کرتاہے،یہ فرشتہ وہ کہتاہے جو میں کہناچاہتاہوں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ جدائی کاغم کس طرح فن کارکی ہڈیوں کو گھلارہاتھا جس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ ایمیلی کی وفات کے بعدسٹوری صرف ایک سال زندہ رہ سکااور پھر ایمیلی سے جاملا۔نظیری نے کہاتھا میری زندگی کا حاصل تین باتوں کے سواکچھ نہیں۔ وہ تین باتیں یہ ہیں کہ میں خام تھا، پختہ ہوااور پھرجل کر راکھ ہوگیا…نظیری کے ساتھ اقبال کایہ بے نظیرنغمہ بھی دیکھیے جس کے نزدیک غم ،روح کا ایسانغمہء خاموش ہے جو سرودبربط ہستی سے ہم آغوش ہے…
ہزاران  سال  بافطرت نشستم
بہ او  پیوستم  و  از  خود گسستم
ولیکن سرگزشتم این دوحرف است 
تراشیدم، پرستیدم، شکستم  
میں ہزاروں سال یعنی طویل مدت فطرت کے ساتھ رہا اس کے ساتھ یوں جڑارہاکہ خودسے بیگانہ ہوگیا لیکن میری سرگزشت اس کے سواکچھ نہیں کہ میںنے اپنی پرستش کے لیے بت تراشا،اس کی پرستش کی اورپھرخودٹوٹ پھوٹ گیا …