یوم نجات نہیں یوم ندامت

یوم نجات نہیں یوم ندامت

لگتاہے انصاف، اصول، سچ، حقیقت، شرم اور حیا سے ان کا کوئی تعلق ہی نہیں ہم سمجھ رہے تھے کہ کپتان کے عشق میں گرفتاریہ چھوٹے چھوٹے کھلاڑی صرف اصول، سچائی،شرم اور حیا سے کہیں دور اور راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں لیکن انصاف،اصول،سچ اورشرم وحیاکاتوان کے بڑے بڑے کھلاڑیوں سے بھی کوئی تعلق اوررشتہ نہیں۔چھوٹوں کے ساتھ ان بڑوں نے یوم نجات کے جس طرح ہیش ٹیگ لگائے اورٹرینڈچلائے واللہ ان کی اس طرح بچگانہ حرکت اورکام پرافسوس بہت افسوس ہوا۔عقل وشعورسے عاری لوگ اورروٹی کوگوگوکہنے والے بچے تواس طرح کے کام کرسکتے ہیں لیکن قوم کے رہبرورہنما ایسی حرکت تودورایساکرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہ کونسا انصاف، کہاں کا قانون اور کیسا اصول ہے کہ جو بندہ آپ کی ہاں میں ہاں نہ ملائے تووہ پھر چور، ڈاکو اور غدار شمار ہو گا۔؟ عمران خان اوران کے کھلاڑیوں کوکسی نے گڑھے میں نہیں پھینکا بلکہ وہ اپنے سیاہ اعمال، افعال اورکردارکی وجہ سے خوداس گڑھے میں گرے۔کپتان اورکھلاڑیوں کاغصہ،گلہ اورشکوہ یہ ہے کہ ان کواس گڑھے میں گرنے سے بچایاکیوں نہیں گیا۔ویسے جن لوگوں کوگڑھے میں گرنے اورغوطے لگانے کاشوق ہو بھلاان کوبھی گڑھے میں گرنے سے کوئی بچاتاہے۔؟اقتدارکی گلی سے بے آبرو ہو کر نکلنا یہ ان کااپناشوق تھا۔بعدمیں اگریہ شوق پوراہواتواس میں کسی اورکاکیاقصور۔؟ماضی کی حکومتوں،سابق لیڈروں اورحکمرانوں کے مقابلے میں کپتان کی حکومت اورعمران خان کواس ملک میں جس طرح سپورٹ ملی تاریخ گواہ ہے کہ وہ کسی اورکوکبھی نہیں ملی۔ہرادارے اوربندے نے حیثیت سے بڑھ کرعمران خان کاساتھ دیالیکن بدلے اورجواب میں عمران خان نے کیا کیا۔؟ بطور حکمران ملک وقوم کی کوئی خدمت تودورعمران خان نے الگ قومی اداروں اورشخصیات کونشانہ بناکرانہیں متنازع بنانے کی کوشش کی۔کیاایک حکمران اوراس کے چیلوں کویہ زیب دیتاہے کہ وہ اپنے اقتدارکوطول دینے اورسیاسی مفادات کو پوراکرنے کے لئے قومی اداروں کوہی داؤ پر لگانا شروع کر دیں۔کل تک جولوگ عمران خان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے وہ توبڑے فرشتے،محب وطن اورملک وقوم کے وفادارتھے لیکن جونہی ان لوگوں نے کپتان کی ہاں میں ہاں ملانے کے بجائے ناں کر دی تووہ پھراچانک سیاہ کار،گناہ گار اور غدار ہو گئے۔ یہ کس کتاب اورکس قانون میں لکھاہے کہ جو لوگ عمران خان اوران کے جاہل ونادان کھلاڑیوں کی ہاں میں ہاں ملائیں گے تووہ ٹھیک،محب وطن اور وفادار ہوں گے اورجوان سے دست شفقت اٹھائیں گے، اختلاف کریں گے اوران کے غلط کوغلط اور ناجائز کو ناجائز کہیں گے تو وہ پھر چور، ڈاکو اور غدار ہوں گے۔ یہ سیاست پہلے بھی اس ملک میں ہوتی تھی،حمایت اوراختلاف کے یہ سلسلے بھی اسی طرح چلتے رہتے تھے لیکن سابق وزیراعظم عمران خان اوران کے کھلاڑیوں نے اب اس ملک میں سیاست کی جونئی جہت متعارف کرائی ہے واللہ یہ کوئی سیاست نہیں خباثت ہی ہے۔ اپنے ہرسیاسی مخالف پر چور اور ڈاکو کا لیبل لگاکرانہیں کورٹ کچہریوں میں ذلیل کرنے اور سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کارواج بھی اس ملک میں پی ٹی آئی نے ہی پروان چڑھایا۔مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، جے یوآئی اوردیگرسیاسی جماعتوں اور پارٹیوں کے وہ کونسے سرکردہ کارکن اوررہنما ہیں جن پرچوری چکاری اورغداری کے لیبل تحریک انصاف والوں نے نہیں لگائے۔؟عمران خان کی مرکزمیں ساڑھے تین چارسالہ حکمرانی اوردوراقتدارکاسبق اورحاصل یہی تو ہے کہ جولوگ اس زمانے میں پی ٹی آئی کے نہیں ہوئے وہ پھرچوری چکاری اورغداری کے القابات، الزامات اورمقدمات سے خود کو کبھی بچا نہیں پائے۔ ہم نے دیگر سیاسی پارٹیوں اور جماعتوں کے بڑے بڑے چوروں اورڈاکوؤں کو تو تحریک انصاف میں شامل ہوتے ہی فرشتے اورایمانداربنتے دیکھا لیکن اسی پی ٹی آئی سے جوبھی لوگ کپتان کاساتھ چھوڑ کر دوسری پارٹیوں اورجماعتوں میں شامل ہوئے عمران خان اوران کے کھلاڑیوں کے نزدیک وہی لوگ جوپہلے بڑے فرشتے اور ایماندار گردانے جاتے تھے ان سے بڑے چور، ڈاکو اور بے ایمان پھر اور کوئی نہ ہوتے۔ کپتان اور ان کے کھلاڑیوں کاشروع دن سے ایک عجیب مائنڈاورعجب قسم کا انصاف ہے جسے کوئی باشعور اور عقلمند انسان مان نہیں سکتا۔ان کاانصاف یہ ہے کہ کپتان سے لیکرنیچے کے ان نادانوں تک یہ خودسب سے بڑے منصف ہیں۔یہ جوکچھ بھی کہیں چاہے وہ سچ ہو یا جھوٹ، جائز ہو یا ناجائز بس وہی حرف آخر ہے۔ کپتان اوران کے کھلاڑیوں کے نزدیک روئے زمین پراس وقت ان سے بڑے ایماندار، سچے، کھرے اوراصول پسند اور کوئی نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایمانداری، سچائی اوراصول کی وادی سے ان کاکبھی گزرہی نہیں ہوا۔یہ کیسی ایمانداری، سچائی اورکیسااصول ہے کہ جوبندہ آپ کے سرپرہاتھ رکھے آپ اسے مائی باپ، ایماندار اور فرشتہ کہتے ہوئے نہ تھکیں لیکن جب وہی ایماندار اور فرشتہ آپ کوآپ کی اصلیت،حیثیت اورآئینہ دکھائیں توآپ اسے چور، ڈاکو اور غدار کہنا شروع کر دیں۔ معذرت انتہائی معذرت کے ساتھ یہ نہ کوئی انصاف ہے نہ کوئی ایمانداری اورنہ ہی کوئی اصول۔اور یہ کوئی سیاست بھی نہیں۔ سیاست میں ایسانہیں ہوتاکہ جوآپ کے ساتھ نہ چلیں توآپ ان کو چور، ڈاکو اور غدارکہناشروع کر دیں۔ سیاست خدمت کانام ہے اور خدمت میں دشمنوں کے ساتھ بھی چلناپڑتاہے جبکہ کپتان اوران کے کھلاڑیوں کی عادت ہے کہ کسی کے ساتھ چلنانہیں۔اورجوکسی کے ساتھ نہیں چلتے ان کے ساتھ پھرایساہی ہوتاہے۔کپتان اوران کے کھلاڑی آج کل جس کھائی میں لاتیں ماررہے ہیں اس کھائی میں یہ منہ کے بل خودگرے ہیں انہیں کسی حاجی اورنمازی نے دھکادے کرنہیں گرایا۔ انہیں کسی حاجی اورنمازی کی ایک لات بھی پڑتی تو انہیں خدا یادآجاتا۔یہ ان کی وہ اپنی ہی لاتیں ہیں جواب ان کوپڑرہی ہیں۔ تکبر، غروراورخودپسندی کی آگ میں جلنے والوں کاانجام آخریہی ہوتاہے کپتان اوران کے کھلاڑی اپنے اسی انجام سے گزررہے ہیں۔جن ہاتھوں سے جو کل بویا تھا انہی ہاتھوں سے آج ان کو وہ کاٹنا پڑ رہا ہے۔ ان حالات میں کپتان اوران کے نادان کھلاڑیوں کو یوم نجات کے بجائے یوم ندامت منانے کااہتمام وانتظام کرنا چاہئے کیونکہ انصاف، سچائی اور اصول بیچ کر مسند خریدنے والے پھریوم ندامت مناتے ہیں یوم نجات نہیں۔