سیاسی مچھر

Muhammad Awais Ghori, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

مردوں کی بے چارگی اور لاچاری صرف انسانوں میں ہی نہیں ہوتی جہاں پر وہ کولہو کے بیل کی طرح ساری زندگی گزار دیتے ہیں اور پھر ان کی اولاد شکایت کرتی پھرتی ہے کہ میرے باپ نے کچھ نہیں کیا اور مجھے کھجل ہونے کیلئے اس دنیا میں بلا لیا۔ مذکر کے ساتھ صرف انسانوں میں ہی ایسا نہیں ہوتا بلکہ مچھروں میں بھی سلوک برا ہی ہوتا ہے، آپ کو اکثر اپنے کانوں کے پاس بھنبھناتے جو مچھروں سنائی اور دکھائی دیتے ہیں ان میں سے زیادہ تر خواتین مچھر ہوتی ہیں کیونکہ مذکر مچھر کی عمر زیادہ سے زیادہ دس دن ہوتی ہے، وہ نئی نسل کی بنیاد رکھ کر اس دار فانی سے کوچ کر جاتا ہے جبکہ مونث مچھر کی عمر خواتین کی طرح زیادہ ہوتی ہے۔مونث مچھرکی زندگی اپنے شوہروں کی طرح چند دن کی نہیں بلکہ کئی ہفتوں پر محیط ہوتی ہے اور یہ 6سے 8ہفتوں تک اس فانی دنیا میں زندہ رہتی ہیں۔ سائنسدانوں کا یہ ماننا ہے کہ لاکھوں سال سے اس کرہ ارض کے باسی مچھر صرف انٹارکٹکا اور آئس لینڈ جیسے شدید ٹھنڈے علاقوں کے علاوہ پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں، اکثر مچھر چند ماہ کیلئے غائب ہو جاتے ہیں تو ہوتا کچھ یوں ہے کہ جب شدید سردی ہوتی ہے تو یہ مچھر خود کو گٹروں، بلوں، درختوں، گیراجوں یا گھر کے کونوں کھدروں میں محفوظ مقام پر چھپا لیتے ہیں، اس دوران ان کی زندگی بے عمل ہو جاتی ہے پھر جب سردیوں کا موسم گزرتا ہے اور بہار آتی ہے تو یہ مچھر دوبارہ عملی زندگی کی طرف واپس آ جاتے ہیں۔ 
دنیا بھر میں مچھروں کی کوئی 3500 سے زیادہ اقسام ہیں جن میں سے ایک قسم پاکستان میں بھی پائی جاتی ہے جسے ’’سیاسی مچھر‘‘ کہا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں سیاسی مچھر ہر دور میں رہے ہیں، بحیثیت سماجی جانور آپ نے معاشرے کی سرگرمیوں میں اپنا حصہ ڈالنا ہوتا ہے اور ملک کے سیاسی نظام میں اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے، مہذب معاشروں میں ایک سیاستدان کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے علاقے کے مسائل کو ایوان زیریں یا بالامیں پیش کرے اور قانون سازی کرائے۔ جبکہ ایک شہری کا یہ کام ہوتا ہے کہ ایسے شخص کو عوام کا نمائندہ چنے جس پر یقین ہو کہ وہ اس کے مسائل حل کرے گا، وہ مسائل جن پر قانون سازی کی ضرورت ہے اوراس طرح عوام کے مسائل بتدریج حل ہوتے رہیں ، پاکستان میں لیکن یہ معاملات بھی ایک نئی شکل اختیار کر لیتے ہیں، یہاں پر سماجی جانور دل و جان سے اپنے سیاستدان پر فدا ہو جاتا ہے، مگر ان سے بھی ایک قدم آگے سیاسی مچھر ہوتے ہیں ، ان مچھروں کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے سیاستدانوں کے قصیدے گاتے ہوئے مسلسل دوسرے پاکستانی سماجی جانوروں کے کانوں کے پاس بھنبھناتے رہتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں ہر کسی کے اپنے اپنے سیاسی نظریات ہوتے ہیں، پسند ناپسند ہوتی ہے، وہ اپنے رہنمائوں کی حمایت کرتے ہیں ، وقت آنے پر ان کو ووٹ دیتے ہیں اور محفلوں میں اپنے رہنمائوں کی حمایت میں دلائل بھی دیتے نظر آتے ہیں، مگر اس سیاسی جنگل میں ایک خاص مقام سیاسی مچھروں کا بھی ہوتا ہے، پاکستان میں سیاسی مچھر ذوالفقار علی بھٹو کی حمایت میں کٹ مرنے کو تیار رہے ،محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے قصیدے لیکر بھی اکثر کانوں کے پاس بھنبھناتے رہتے تھے مگر عمران خان کے سیاسی مچھروں نے تو حد ہی کردی ، بیٹے باپ سے الجھ پڑے، انہیں بیوقوف کہنے لگے، ان کی سیاسی بصیرت پر سوال اٹھانے لگے اور انہیںبتانے لگے کہ آپ کو سیاست کی کیا خبر یہ دیکھیں شہزادہ عمران خان کتنی شاندار زندگی چھوڑ کر ہماری مدد کو آن پہنچا 
ہے۔ دوستوں کی محفل میں تو یہ سیاسی مچھر آپے سے ہی باہر ہو جاتے ، بچپن کی دوستیوں کا لحاظ بھی نہ رکھتے اور کسی دوسری پارٹی کی حمایت پر اپنے دوستوں کو لتاڑ دیتے اور اپنی نشستوں سے چھلانگیں مار مار کر انہیں جاہل اور عمران خان کو عقلمند قرار دیتے، یہ دلیل بھی دیتے کہ عمران خان کتنا ہینڈسم ہے، پاکستان کا وزیر اعظم دنیا کا سب سے ہینڈسم وزیر اعظم ہو گا۔ ان کے دلائل پر نجی ٹی وی پر نشر ہونے والے ڈرامے کے ایک سین میں نعمان اعجاز کا وہ ڈائیلاگ صادق آتا ہے کہ ’’شرم کرو !مرد ہو کر عورت سے محبت کرتے ہو‘‘۔ 
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ، بہت پڑھے لکھے دوست ٗ رشتے دار بھی سیاسی مچھروں میں تبدیل ہوتے نظر آئے، کان کے پاس بھنبھنانا تو دور یہ اکثر کان کے پردے پھاڑنے کی کوشش کرتے ، الیکشن سے پہلے جب عمران خان انگلی ٗ انگلی کر رہے تھے تو یہ لوگ اپنے ہی رشتہ داروں اور دوستوں کی زندگی اجیرن کئے ہوئے تھے، ہر طرف عمران خان کی کہانیاں تھیں، ہمارے ایسے ہی ایک یونیورسٹی فیلو جو اب ماشاء اللہ لندن سے فلم اینڈ ٹی وی پی ایچ ڈی کررہے ہیں اور بہت پڑھے لکھے شمار ہوتے ہیں ، وہ دورہ پاکستان پر تھے توہماری کتنی ہی راتیں اور دن اس بات میں خراب کر دئیے کہ ہم ان کی طرح تبدیلی کے اس سفر میں عمران خان کے ہمنوا ہو جائیں، جب بھی تحریک انصاف کے سیاسی جلسوں میں کوریج کیلئے مینار پاکستان جانا ہوتا تو وہاں پر ایک بچپن کے دوست باچھیں پھیلائے ہوئے، تحریک انصاف کے جھنڈوں کو کپڑے بنائے اور ماتھے پر ان کا لوگو سجائے اکثر ملتے ہیں ہمیں آنکھوں ہی آنکھوں میں دھمکاتے کہ اب بھی تبدیلی کی نائو میں سوار ہو جائو ورنہ تمہاری داستان بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔ ایک رشتہ دار کے گھر کھانے پر گئے تو بی اے فیل صاحبزادے نے باپ کے بنائے گھر اور اسی کے کمائے ہوئے دسترخوان پر بیٹھ کر اس کی سیاسی بصیرت پر اتنے حملے کئے کہ ان کی آنکھوں کے کونوں کو نم ہوتے ہم نے خود دیکھا۔ مگر پھر تبدیلی کا یہ ڈینگی بخار ایسا اترا کہ سب نارمل ہو گیا، نارمل کیا ہونا تھا کہ ان سیاسی مچھروں کو ہم نے خود برے حالات( شدید سردیوں) میں پردہ نشین ہوتا دیکھا، ان کی زبانوں کو تالے لگتے دیکھا ، محفلوں سے بھاگتے اور دفتروں میں سب کو نظرانداز کر کے کمپیوٹر سکرین پر نظریں جماتے دیکھا، ان سیاسی مچھروں میں کچھ باعزت اور اصولی مچھر بھی تھے، جنہوں نے اپنی حد سے بڑھی ہوئی سیاسی وابستگی اور سیاسی مچھر بننے پر معذرت کی اور دوبارہ سیاسی جانور بنے رہنے کے عزم کا اظہار کیا۔
مگر وائے افسوس کہ آج بھی گنتی کے چند سیاسی مچھر اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں، وہ سیاستدانوں کو انسان اور خطا کا پتلا سمجھنے پر تیار ہی نہیں، گنتی میں چاہے وہ کم ہیں وہ اب بھی اکثر کانوں کے پاس بھنبھناتے ہیں، مگر اب ان کی کمزور سی اڑان پر ہنسی آتی ہے اور ان کی بے چارگی پر ترس ۔ آج صبح میں نے دیکھا کہ کمرے کی چھت پر ایک مچھر سردیوں کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کونوں کھدروں سے نکل کر بیٹھا تھا، چاہے یہ سیاسی مچھر نہیں تھا مگر مجھے یہ بات بری لگی کہ جب تمہارے دیگر ساتھی ایک معاہدے اور ہار کے تحت پاکستان کے ان برے حالات میں گوشہ نشین ہیں تو تم کیوں بے شرمی سے میرے سامنے آکر بیٹھ گئے اور پھر اس مچھر کی زبان کو اس جرم کی پاداش میں ہمیشہ کیلئے خاموش کرا دیا گیا۔

مصنف کے بارے میں