ہماری قیادت قوم کو کیا دے رہی ہے

ہماری قیادت قوم کو کیا دے رہی ہے

نگہ بلند، سخن دلنواز، جان پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لیے
قیادت و سیادت کے حوالے سے ”بانگ درا“ میں علامہ اقبال ؒ  نے مندرجہ بالا جن تین معیارات کا ذکر کیا ہے، ان کے تناظر میں اگر موجودہ ملکی منظرنامے کو دیکھا اور پرکھا جائے تو صورتِ حال اس کسوٹی کے یکسر اُلٹ اور بہت مخدوش دکھائی دیتی ہے۔آج کے میر ہائے کارواں میں کہاں کی بلند نگاہی، کہاں کے دلنواز سخن اور کہاں کی پر سوز جان۔۔۔؟  یہاں تو سرے سے ہی سب کچھ سفر معکوس پر گامزن ہے۔۔۔! محدود انفرادی مفادات، اپنی ذات اور خواہشات کی تکمیل کے لیے ملکی وسائل کے بے دریغ استعمال کے ساتھ ساتھ الزام تراشی، دشنام سازی،بد زبانی ا ور بدکلامی کا سلسلہ ہر طرف پوری شدو مد سے جاری و ساری ہے جس کے نتیجہ میں عدم برداشت کا ایک ایسا کلچرنہ صرف یہ کہ فروغ پا چکا ہے بلکہ مسلسل پنپ بھی رہا ہے جو معاشرتی استحکام اور ملکی بنیادوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہے……! 
ایک وقت تھا کہ لوگ اپنے اخلاق و کردار کے حوالے سے بہت محتاط رہتے تھے اور کسی بھی قسم کے سکینڈل سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ خدا نخواستہ اگر کسی کے بارے میں کوئی منفی بات یا سرگرمی سامنے آجاتی تو مارے شرم کے مدتوں، میڈیا تو دور کی بات ہے اپنوں سے بھی، منہ چھپائے پھرتے۔۔۔مگر آج یہ حال ہے کہ کسی کا کوئی سکینڈل، چوری یابے ضابطگی سامنے آتی ہے تو وہ بجائے شرمسار ہونے، معافی مانگنے اور اپنے آپ کو بہتر کرنے کے بڑی ڈھٹائی سے میڈیا ٹاک کرتا ہے، دوسروں کی چھوٹی بڑی چوری کو اپنی چوری اور ہیرا پھیری کا جواز بتا کر اوروں پر خوب کیچڑ اچھالتا ہے اورخود کو معصوم پیش کرکے سب باتوں سے بری ہوجاتا ہے۔۔اس کے پیچھے پیچھے اس کے ماننے والے، جو اکثر اپنے مفادات کے اسیر ہوتے ہیں، اس کے دفاع میں پورے طمطراق سے ایسی ایسی مثالیں پیش کرتے ہیں کہ الامان……!
ایک طرف یہ حال ہے تو دوسری طرف جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ "خدا گنجے کو ناخن نہ دے"۔۔۔مراد اس سے یہ ہے کہ خدا کم حوصلہ اور کمینے آدمی کو صاحب اختیارنہ کرے۔۔اسی طرح سے شومئی قسمت اگر کسی کم ظرف اور نفسیاتی مریض کو کوئی عہدہ یا منصب مل جائے یا کسی طور سے کسی اختیار یا اقتدار کی ڈور کا کوئی سرااس کے ہاتھ آجائے تو پھر محال ہے کہ کسی کی بچت ہو۔۔۔! غیر تو غیر اپنے بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں رہتے۔۔۔ اس کے قریب بیٹھنے والے، اس کے ساتھ کام کرنے والے اور اس سے منسلک افراد کاوہ انفرادی و اجتماعی استحصال ہوتا ہے کہ خدا کی پناہ۔۔۔۔!  اپنی ذات کو حرف آخر سمجھنا، خوشامد پسند ہونا،انا کے بت کدے میں زندگی بسر کرنا، بات بہ بات ٹوکنا، قدم بقدم جھڑکنا،حیلے بہانے سے طعنے دینا، اپنے لیے جائز نا جائز سب حلال اور دوسروں کا جینا تک حرام کردینا۔۔۔اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہ آنا اور دوسرے کی آنکھ کے تنکے بھی کچھ اس طور سے اچھالنا کہ سماں باندھ دینا۔۔۔!  
ایسے لوگوں کو اگر ملکی سطح پر قیادت کا موقع مل جائے تو ان کے فن اور فکر کے کیا کہنے۔۔۔! ہر طرف ایک افراتفری، تناؤ، فرسٹریشن اوردباؤ کا ماحول طاری ہو جاتا ہے۔حسد بغض اور عناد کی فصل بو کر اُس کی اس انداز میں آبیاری کی جاتی ہے کہ فضامیں ہر طرف نا اتفاقی،الزام تراشی اور طوفان بدتمیزی کا شور بپا ہو جاتا ہے۔ آزاداور معتدل فضامیں سانس تک لینا دشوار ہو جاتاہے۔ اسی طرح سے ایسے نفسیاتی مریض اگر قیادت یا اختیارکے کسی منصب پر فائز ہو جائیں اور خوش قسمتی یا بد قسمتی سے ان کو کچھ اندھے عقیدت مندبھی مل جائیں تو پھران کے انداز و اطوار کے رنگ اور زیادہ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔ا ن کے لہجے کی گن گرج، اپنی تعریف وتوصیف، دوسروں کی عیب جوئی اور ان کی پگڑی تک اچھالنے میں کوئی حد اور کوئی کسر باقی نہیں رہتی۔۔۔۔! ایسے لوگ اپنے انفرادی پاگل پن کواپنے ماننے والوں کے اندر کچھ اس طرح سے منتقل کرتے ہیں کہ ان کے زہر کے اثرات دور تک سرایت کر جاتے ہیں جبکہ کئی میں تو یہ نسل در نسل منتقل ہو جاتے ہیں۔۔۔۔حتیٰ کہ بعض اوقات یہ صورت حال معاشرہ کے مجموعی پاگل پن تک جا پہنچتی ہے۔۔۔تاریخ عالم ہلاکو خان، چنگیز خان اور ہٹلر جیسے کرداروں اور ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔۔۔!
ماضی قریب میں جنگ عظیم اول اور دوم اور عصر حاضر میں اقوام عالم کے درمیان جاری مسلسل کشمکش، دہشت گردی کے سلسلے اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ایسے منفی کرداروں اوران کے تربیت یافتہ لوگوں کا ذہنی و فکری خلجان، شدت پسندی اور اُس کے اثرات سب کے سامنے ہیں۔۔۔! ایسے ہی ذہنی و فکری انتشار کے سلسلے ملک کے طول وعرض میں آجکل پوری شدت سے جاری ہیں۔ ایسے لیڈر سیاسی ہوں یا مذہبی، چھوٹے ہوں یا بڑے، درویشی کے چولے میں ملبوس ہوں یا رہبری کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہوں۔۔۔ان کے شر سے کوئی محفوظ نہیں۔۔۔ہمسا ئے نہ رشتہ دار، گھروالے نہ دوست احباب۔۔۔سب ان کی زد میں ہیں۔۔۔ ان کے اندر کا کھوٹ ان کے متکبرانہ لہجے سے ہی عیاں ہو جاتا ہے۔۔۔بد ترین زبان،کڑوا کسیلا لہجہ، نفرت، تقسیم، بیمار ذہنیت، بیمار سوچ، عدم برداشت پر مبنی رویہ اور یک بیک احساس کمتری و برتری کی شکار شخصیت اُن کی خاص پہچان ہے۔۔۔ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے وہ عامیانہ پن تک سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ان کے سامنے صرف اُن کی اپنی ذات ہوتی ہے۔ کسی بھی قسم کی سماجی و اخلاقی اقدار و روایات سے ان کا کوئی علاقہ نہیں ہوتا۔۔۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملک وقوم کی خیر فرمائیں اور ایسے متکبر وخود پسند لوگو ں سے سب کو محفوظ رکھیں۔۔۔یہ ملک و قوم کو بلند نگاہی، شیریں سخن اور پر سوز جان کا نمونہ تو کیا دیں گے، اُلٹا قوم سے اس کی بچی کھچی اخلاقیات اچک لینے کے درپے ہیں۔۔۔!