”غریبوں کواب بخش دو“

”غریبوں کواب بخش دو“

پانی سرسے گزرانہیں لیکن کندھوں تک پہنچ چکاہے شائدکہ اگلے کسی جھٹکے یالمحے میں یہ سرسے بھی گزر جائے، فی الحال کوئی امید اور یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ پانی سرسے نہیں گزرے گا۔جن حالات سے آج یہ ملک گزررہاہے ایسے حالات پہلے کبھی نہیں دیکھے۔سیاست کوکرکٹ کاکھیل،شغل اورڈرامہ سمجھنے والوں کے علاوہ ہرشخص اورفردملک کے موجودہ حالات کے بارے میں حیران بھی ہے اورپریشان بھی۔ہردور،ہرزمانے اورہرحکومت میں ملک کودونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کے شب وروزتوآج بھی چین وسکون سے گزررہے ہوں گے لیکن مشکل سے دووقت کی روٹی کمانے والوں پراس وقت جو کچھ گزر رہی ہے۔واللہ۔ وہ بیان کرنے سے بھی باہرہے۔مہنگائی کے ان جھٹکوں پر جھٹکوں کا شائدکہ حکمرانوں،سیاستدانوں، بیوروکریٹ اور سرمایہ داروں کوکوئی فرق اور اثر نہ پڑتاہو لیکن ان جھٹکوں نے غریبوں کی کمرتوڑکے رکھ دی ہے۔غریب جوپہلے ہی سسک سسک کرجی رہے تھے،اب ان کی وہ سسک سسک کرجینے کی امیدیں بھی دم توڑنے لگی ہیں۔ یوں تواس ملک کے اندرہردوراورحکومت میں غریب لٹتے،ڈستے اوردبتے رہے ہیں لیکن پچھلے چارپانچ سال سے جس بے رحم طوفان اورآندھی نے ان غریبوں کاپیچھاکیاہواہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں بوجھ ہمیشہ ان پرہی پڑتاہے یاڈالاجاتاہے جوپہلے سے ہی بوجھ تلے دبے ہوئے ہوتے ہیں۔مرے ہوئے کومارناواقعی کوئی ہم سے سیکھے۔نیچے سے اوپرتک سب کوپتہ ہوگا کہ یہ بندہ اوریہ طبقہ مزیدبوجھ برداشت نہیں کرسکے گاپھربھی بوجھ اس کے کندھوں پرہی ڈالاجائے گا۔اس ملک میں روٹی کے ایک ایک نوالے کے لئے رلنے اورتڑپنے والوں کی حالت اورغربت سے کوئی لاعلم نہیں۔وزیروں اور مشیروں سے حکمرانوں اورسیاستدانوں سے افسروں تک سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں غریب کتنی مشکل سے جی رہے ہیں لیکن پھربھی امتحان، آزمائش اورقربانی کاجب بھی کوئی موقع اورمرحلہ آتاہے اسی غریب کوپھرسب سے پہلے آگے کیا جاتا ہے۔ اپنی چارروٹیوں کودوکوئی نہیں کرتالیکن غریب کی ایک ہی روٹی کوآدھی کرنے کے لئے سب بھاگناشروع کردیتے ہیں۔ملک کواس نہج،اس مقام اوراس حال تک کس نے پہنچایا۔؟اس کاتوکسی کوکوئی پتہ نہیں لیکن یہ پتہ سب کو ہے کہ غریب کی روٹی آدھی اورنیندیں حرام کرکے ملک کواب اس حال سے نکالناہے۔کیااس ملک میں گناہ گارصرف غریب ہی ہیں۔؟جولوگ بیس تیس اورچالیس سال سے اس ملک کوخالہ جی کاگھرسمجھ کردونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں کیاان کاکوئی حق نہیں کہ وہ ملک کواس دلدل سے نکالنے کے لئے آگے آئیں۔؟ اس ملک کونقصان ہمیشہ اعلیٰ اورامیرطبقے نے پہنچایا لیکن قیمت پھرہمیشہ غریبوں نے چکائی۔غریب آج بھی جن گناہوں کامفت میں کفارہ اداکررہے ہیں یہ گناہ بھی ان غریبوں کے نہیں تھے۔اس ملک کے غریبوں نے تووہ قرض بھی اداکئے جوان پرفرض بھی نہیں تھے۔ یہ ملک جتناغریبوں کاہے اتناہی امیر اور اعلیٰ طبقے کابھی ہے۔اس ملک کے وسائل جتنے اعلیٰ اورامیرطبقے نے استعمال کئے اتنے کبھی غریبوں نے استعمال نہیں کئے۔غریبوں کوتویہاں وسائل کے بجائے ہمیشہ مسائل ہی مسائل ملے۔ اب اگرملک مشکل میں ہے تواس اعلیٰ اورامیرطبقے کو بھی اپنے وسائل اس ملک کے لئے استعمال کرنے چاہئیں۔ غریبوں نے توپہلے بھی ملک کے لئے قربانیاں دیں اورغریب آج بھی پیٹ پرپتھرباندھ کرملک کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں لیکن افسوس امیراوراعلیٰ طبقے نے کل بھی ملک لوٹااوریہ طبقہ اب بھی صرف ملک لوٹنے کے چکروں میں لگاہواہے۔غریبوں کی روٹی آدھی کرنے سے نہ تومسائل حل ہوں گے اورنہ ہی ملک مشکل سے نکلے گا،ملک کومشکل سے نکالنے کے لئے اشرافیہ کو عیاشیوں کے سمندرسے نکالناپڑے گا۔یہ کیاطریقہ ہے کہ غریبوں کوکھانے کے لئے ملک میں خشک روٹی بھی  نہ ہواورامیروں کے نازنخرے اٹھانے کے لئے خزانوں کے منہ بھی کھول دئیے جائیں۔اس ملک میں ایک ایک افسرجتنی تنخواہیں اورمراعات لیتے ہیں کیایہ ملک اس کامتحمل ہوسکتاہے۔؟غریب صبح سے شام تک آٹے کے لئے لائنوں میں کھڑے رہتے ہیں پھربھی انہیں بیس کلوآٹانہیں ملتالیکن اسی ملک میں ایک وزیر، مشیر اور افسر کو پروٹوکول دینے کے لئے آگے پیچھے نوکروں،چاکروں اور گاڑیوں کی لائنوں پرلائنیں لگی رہتی ہیں۔ غریب کے علاج معالجے اور تعلیم کے لئے تو خزانے میں پیسے نہیں ہوتے لیکن جب سیاستدانوں اوران کے بچوں کے انتخابی ارمان پوراکرنے کاٹائم آتاہے توپھراسی خزانے سے لاکھوں اورکروڑوں نہیں اربوں تک اڑادیئے جاتے ہیں۔اس ملک میں غریب کوپیناڈول اورڈسپرین کی ایک گولی بھی مفت نہیں ملتی لیکن ماہانہ لاکھوں اورکروڑوں تنخواہیں اورطرح طرح کے مراعات لینے والوں کے گھر اور مہمانے خانے کیا۔؟ بجلی، گیس، پٹرول، ٹیلی فون اور راشن سمیت سب کچھ مفت پرچلتارہتاہے۔اس مٹی پرغریب وہ واحداوربدقسمت مخلوق ہے جو نہ صرف اپنے گناہوں بلکہ حکمرانوں، سیاستدانوں، بیورو کریٹ، صنعتکاروں اورسرمایہ داروں کے گناہوں کابوجھ بھی اپنے ناتواں کندھوں پربرسوں سے اٹھارہے ہیں۔ اس ملک میں کرتااورکھاتاکوئی اورہے لیکن بھرتا ہمیشہ غریب ہی ہے۔لگتاہے یہاں ان بڑے بڑے مگرمچھوں کے کفن دفن کے پیسے بھی غریبوں کی اس آدھی روٹی سے نکالے جاتے ہیں۔ غریبوں نے اس ملک اورقوم کے لئے جو قربانیاں دینا تھیں وہ انہوں نے دے دی ہیں اورآج بھی یہ اپنی ہمت اوربس سے بڑھ کرملک کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں۔انصاف کاتقاضایہ ہے کہ اب کی باران بڑے بڑے مگرمچھوں سے نہ صرف قربانی لی جائے بلکہ ان کولوٹ مارسے روکنے کے لئے کوئی خاص انتظام بھی کیاجائے۔غریب لوگ آخرکب تک ان بڑوں کے گناہوں کی قیمت چکاتے رہیں گے۔؟غریب کی روٹی آدھی کرنے سے بہترنہیں کہ قومی خزانے کوباپ داداکی جاگیرسمجھنے والوں کے سرکاری اخراجات اور مراعات بالکل ختم کئے جائیں یاان میں خاطرخواہ کمی کی جائے۔غریب کے پاس ایک وقت کی روٹی کے لئے پائی تک نہ ہو اور حکمران،  سیاستدان اورافسرعوام کے ٹیکس پرشاہانہ پروٹوکول کے مزے لیکربادشاہ بنتے پھریں اس سے بڑی بے حسی اورظلم اورکیاہوگا۔؟ یہ ظلم اب تک اس ملک میں ہوتارہاہے اورآج بھی ہورہاہے لیکن اب وقت آگیاہے کہ ملک کے تمام چھوٹے بڑے مگرمچھوں کو قربان گاہ میں لاکرظلم کے اس سلسلے کوہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کیاجائے غریب اب مزیدکسی قربانی کے قابل نہیں رہے ہیں،اب قربانی کے لئے ان موٹے تازے ”سانڈوں“ کا انتظام کرنا ہو گا۔ کیونکہ جب تک اس ملک کودیمک کی طرح چاٹنے اورعوام کو کاٹنے والے اژدھوں کاکوئی علاج نہیں کیاجاتاتب تک ہمارے یہ حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔غریب بے چارے آخرکب تک قربانیوں پرقربانیاں دیتے رہیں گے۔؟