وزیراعظم عمران خان کے بیان سے دل اور بھی دکھی ہوئے ، علامہ ہاشم موسوی

وزیراعظم عمران خان کے بیان سے دل اور بھی دکھی ہوئے ، علامہ ہاشم موسوی
سورس: سکرین شارٹ

لاہور،مجلس وحدت المسلمین کے رہنما علامہ ہاشم موسوی  نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا احترام دل میں ہے مگر ان کے بیان سے ہمارے  دل دکھی ہوئے ہیں ۔ پروگرام لائیو ودنصراللہ ملک میں گفتگو کرتے  ہوئے انہوں نے کہا کہ اب تک جتنے بھی لوگ یہاں پر آئے ہیں انہوں نے صرف بیان بازی سے کام لیا عملی طورپرکچھ نہیں کیا ۔ اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم خود تشریف لائیں اور احکامات پٌر عملدرآمد فرمائیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں عمران خان سے توقع نہیں تھی جو انہوں نے ہمارے بارے الفاظ کہے ۔ ہم نے ان کو  بلیک میل نہیں کرنا کوئی این آر او نہیں لینا ہم نے ان سے کوئی کرسی نہیں لینی ۔ ہم صرف ان سے تحفظ سیکورٹی اور امن چاہتے ہیں ۔ اگر وزیراعظم کوئٹہ آجائیں تو ان کی عزت میں اضافہ ہوگا ۔ عمران خان نے ایسے بیانات سے ہمارے دلوں کو اور بھی دکھی کردیا ہے ۔ عمران خان اس ریاست کے سربراہ ہیں ان کو ہمارے دکھ کو سمجھنا چاہئے ۔ ہم پرامن لوگ ہیں ہماری طرف سے کوئی سیکورٹی کا ایشو نہیں ہوگا جو لو گ پہلے آئے ہیں کیا ہم نے ان سے کوئی ایسی بات کی ۔

تجزیہ کار مظہرعباس نے کہا کہ اگر وزیراعظم اپوزیشن میں ہوتے اور حکومت کی طرف سے کوئی ایسا بیان آتا تو پھر عمران خان کا کیا ردعمل ہوتا ۔اگر وزیراعظم چلے جاتے تو کچھ نہیں بگڑنا تھا ۔ وزیراعظم پہلے روز ہی آجاتے مطلوبہ جگہ پر نہ جاتے تو کم ازکم گورنر ہاؤس چلے جاتے متاثرین کو بلاتے ان  سے ملاقات کرلیتے  ۔وزیراعظم اگر کچھ نہیں کرسکتے تھے تو کم از کم ایسا کوئی بیان نہ دیتے جس سے لوگوں کے دل اور بھی دکھی ہوتے ۔ ان کو جلد ازجلد کوئٹہ جاکر لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہئے ۔ 

پروگرام میں شامل تجزیہ کار افتخار احمد کا کہنا تھا کہ اگر دیکھا جائے تو عمران خان کوئٹہ نہ جاکر اپنے اداروں کی توہین کررہے ہیں ۔ سیکورٹی ادارے پاکستان کے تحفظ کے ادارے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی طورپر ان کو استعمال نہ کیا جائے لیکن اس وقت ان کا مذاق اڑانے والی بات ہے ۔ ہماری فوج ہمارے ادارے ہمارا فخر ہیں لیکن ہمارے وزیراعظم ان کے بارے میں غیر ذمہ داری سے بات کررہے ہیں ۔ وزیراعظم نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ غلط ہیں ۔ ہزارہ برادری کے اب تک دوہزار لوگوں کو قتل کیا جاچکا ہے اتنے لوگوں نےا ظہار افسوس کیا لیکن کیا کسی جگہ  پر ان کے قتل کی کوئی ایف آئی آر درج ہوئی ۔ اگر دوہزار لوگ مارے جائیں اور ان کی کوئی ایف آئی آر نہ ہو توکیا ریاست کو جواب دہ نہیں ہونا چاہئے ۔