سٹریل باس سے …………

سٹریل باس سے …………

ایک شہری لڑکی کی شادی گاؤں میں ہو گئی۔
لڑکی کی ساس نے اُس سے کہا
”جاؤ بھینس کو چارا ڈال دو“
 لیکن لڑکی جب چارا ڈالنے گئی تو
بھینس کے منہ میں جھاگ دیکھ کر واپس آگئی۔
ساس نے پوچھا …… کیا ہوا بہو ……؟
کیوں ایسے ہی واپس آگئی؟
 بہو…… ”بھینس ابھی کولگیٹ کر رہی ہے ماں جی“۔
 میں نے یہ لطیفہ اپنی طرف سے باس کو سنایا کہ شاید اس کا موڈ کچھ بہتر ہو جائے مگر حیرت ہوئی کہ باس کا موڈ مزید بگڑ گیا۔ میں نے پی اے سے پوچھا تو ڈرتے ڈرتے بولا…… ”بھائی باس آپ سے بڑا میراثی ہے۔ ایسے ”پھوسہڑ“  لطیفوں سے نہیں ہنستا ……؟ پرسوں گھر فون کر رہا تھا تو میں نے چپکے سے گفتگو سنی جس کا لب لباب یہ تھا۔
-1 لہسن چھیلنے سے اگر ہاتھوں سے لہسن کی بو آنے لگے تو ہاتھوں کو مٹی کا تیل لگا کر دھو لیں اور اگر مٹی کے تیل سے ہاتھ دھونے سے ہاتھوں سے تیل کی بو آنے لگے تو مت گھبرائیں وہ دو تین دن بعد خود ہی چلی جائے گی……؟
-2 اگر کسی کپڑے پر زنگ لگ جائے تو احتیاط سے اتنے حصے کو کاٹ دیں ……؟
3- اگر ہمسائے چائے کی پتی مانگنے آتے ہیں تو اس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ استعمال شدہ پتی کو خشک کر کے رکھ لیں اور مانگنے پر وہی پتی دیں۔
لیکن خیال رہے کہ آپ خود وہاں چائے پینے نہ پہنچ جائیں۔ 
پی اے نے جس تیزی سے ایک دو تین لطیفے سنا ڈالے تو میں نے سامنے بیٹھ کر غور سے دیکھا…… دیکھتا رہا…… سنجیدگی طاری کر کے…… تو پی اے کی ہنسی نکل گئی پھٹ پڑا …… ادھر ادھر دیکھ کر بولا۔
ہاں ہاں …… مجھے ڈراؤ مت …… میں بھی ”خان صاحب“ہوں۔
لڑکیوں کے ایک Delegation کے ساتھ باس کی بڑی سنجیدہ میٹنگ تھی…… میں بھی مدعو تھا۔ میں نے عہد کر رکھا تھا ما حول جس قدر بھی ”گلابی“ ہو جائے میں ہنسی پر ضبط کر کے رہوں گا حالانکہ میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے اور میں اس حوالے سے کئی بار سر عام بے عزت بھی ہو چکا ہوں …… جولطیفہ اچانک گرنے پر بھی نہ ہنسے یا جس کے منہ پر شیخ رشید کو آتا دیکھ کر …… ہنسی طاری نہ ہو ……وہ بھی کوئی انسان ہے بھلا۔ 
میٹنگ شروع ہوئی تو ”باس“ نے خواتین کے حقوق کی بات کی…… اور اس حوالے سے دلائل بھی دیے…… لڑکیوں نے تالیاں بجا دیں شاید وہ بھی سمجھ چکی تھیں کہ ہمیں خوش کرنے کے لیے ”باس“ سر عام جھوٹ بول رہا ہے۔ میرا دل چاہا میں کہوں کہ گرمیوں میں صرف پندرہ منٹ اس کمرے میں دس بارہ لڑکیاں بہادر بن کے بیٹھ کے دکھا دیں جہاں صرف ایک چھپکلی کا بچہ دیوار سے چمٹا کبھی چبا چبا کر ناشتہ کرتا ہو…… کہ یکدم…… چنگیز جو مہمانوں کی چائے سے تواضع کر رہا تھا اور شاید جھوٹ سن سن کے پریشان ہورہا تھا…… پھٹ پڑا…… بغیر مشورہ کیے…… سنجیدہ ہو کر اچانک بول اٹھا۔ 
”سر اور بہت سی میڈم صاحبان“……”میں اور میری اوقات کیا لیکن میرے کان یہ سن سن کر پک گئے ہیں کہ لڑکے اور لڑکیاں برابر ہیں …… حالانکہ اس چیز کو چیک کرنے کا میرے پاس صرف ایک ہی طریقہ ہے…… سب نے سمیت میرے اور باس کے…… غور کیا اور توجہ سے بات سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہوئے تو وہ یہ فقرہ اچھال کر باہر بھاگ گیا۔ 
”جن لڑکیوں کو لگتا ہے کہ وہ لڑکوں کی برابری کر سکتی ہیں“؟
”تو پھر گرمیوں میں ٹنڈ کروا کر دکھا ئیں؟“
مجھے سنجیدہ محفلیں اچھی نہیں لگتیں۔ میں سنجیدہ گفتگو سے گھبرا جاتا ہوں۔ میٹرک کا زرلٹ آیا تو میں ادھر ادھر چھپتا پھر رہاتھا۔ میرے والد محترم نے یہ بات نوٹ کر لی…… اور ایک طرف لے جا کر بولے…… (بڑی محبت سے) پتر خیر ہے ناں رزلٹ آنے پر گھبرا رہے ہو…… کیا ہواگر میرا بیٹا فیل ہو گیا تو…… دوتین چانس ہوتے ہیں ورنہ سٹیج ڈراموں میں تم جیسوں کی جگہ ہے ”لوگ ہنستا چاہتے ہیں“……؟ بھوکے نہیں مرو گے؟
میں گھبرا گیا…… کہ ابو جی کو بھی پتا ہے کہ ”چن چڑھنے والا جے“ …… باؤ جی دعا کریں …… پرچے چیک کرنے والے میراثی ہوں ……؟ ”سب کے سب“ میں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا
والا صاحب کی بھی ہنسی نکل گئی…… اب تو کام مزید بگڑ گیا…… انہوں نے بازو سے پکڑا اور محلے کے مولوی صاحب کے پاس لے گئے…… اور بتادیا کہ جمعہ کے بعد دعا کروادیں کہ اس کے میٹرک کے پرچے چیک کرنے والے میراثی ہوں ……مولوی صاحب نے اس وقت دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے……”آمین“ کہہ کر دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیر کر فارغ ہوئے تو والد صاحب نے حیرت سے پو چھا…… مولوی صاحب اتنی جلدی آپ نے دعا کرادی…… گویا آپ بات کی تہ تک پہنچ گئے تھے؟
مولوی صاحب مسکراتے ہوئے بولے…… ”آپ کا بیٹا میرے لیے قابل صد احترام ہے اور میں اس کا شکر گزار ہوں …… میری بیوی بڑی سٹریل مزاج ہے جب سے آپ کے بیٹے سے دوستی ہوئی ہے یہ مجھے لطیفے سناتا ہے جن میں سے ایک آدھ سب سے اچھا میں بیوی کو سناتا ہوں اور وہ ہنستے ہنستے دیواروں میں جا کے لگتی ہے اور گھر کا ماحول اچھا رہتا ہے…… مجھے سو فیصد یقین ہے یہ پرچوں میں ہر سوال حل کر کے ایک دو لطیفے بھی لکھ کے آیا ہوگا…… ممکن ہے جہاں کچھ نہ لکھ سکا ہوگا لطیفے لکھ کے آ گیا ہو گا؟
شکر ہے مولوی صاحب کی دعا قبول ہو گئی کیونکہ واقعی میرے پرچے چیک کرنے والے میراثی ہی تھے کیونکہ میرے میٹرک میں 650 نمبر آگئے تھے؟“