آئندہ سال شرح نمو 5 فیصد سے زائد ہو سکتی ہے، اسد عمر

آئندہ سال شرح نمو 5 فیصد سے زائد ہو سکتی ہے، اسد عمر
کیپشن: آئندہ سال شرح نمو 5 فیصد سے زائد ہو سکتی ہے، اسد عمر
سورس: فائل فوٹو

اسلام آباد: وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا اور آئندہ مالی سال ترقیاتی پروگراموں کا حجم 2201 ارب روپے ہو گا جبکہ پی ایس ڈی پی کا حجم رواں سال کے مقابلے میں 36 فیصد زائد ہو گا۔ 

تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و این سی او سی کے سربراہ اسد عمر نے چیئرمین سی پیک اتھارٹی عاصم سلیم باجوہ کے ہمراہ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا آئندہ سال شرح نمو 5 فیصد سے زائد ہو سکتی ہے اور آئندہ مالی سال ترقیاتی پروگراموں کا حجم 2201 ارب روپے ہو گا جبکہ پی ایس ڈی پی کا حجم رواں سال کے مقابلے میں 36 فیصد زائد ہو گا اور توانائی، ٹرانسپورٹ کیلئے مجموعی تخمینے کے 56 فیصد فنڈز مختص کیے اسی طرح پانی کے شعبے کیلئے 10 فیصد فنڈز مختص کیے جا رہے ہیں۔ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ قوموں کو ٹینکوں اور بندوقوں کے ذریعے متحد نہیں رکھا جا سکتا بلکہ قوموں کو متحد رکھنے کیلئے تمام علاقوں کی یکساں ترق  ضروری ہوتی ہے جبکہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کیلئے بجٹ کا 5 فیصد حصہ مختص کیا گیا ہے۔ بریفنگ کے دوران وفاقی وزیر نے کہا پاکستان میں کہیں بھی چلے جائیں سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے اور ملک کے تمام شہروں کو ترقی کے یکساں مواقع ملنے چاہئیں جبکہ کراچی میں کے فور اور نئی گاج ڈیم کے بھی منصوبے بجٹ میں شامل ہیں اور اگلے مالی سال کیلئے 3 بڑے ڈیمز کیلئے 85 ارب روپے مختص ہوں گے اور ان نئے ڈیموں کی تعمیر سے ملک بھر میں مزید 3 لاکھ ایکڑ اراضی سیراب کی جا سکے گی۔ 

انہوں نے کہا بجلی کے تقسیم کار نظام کی بہتری کیلئے اگلے مالی سال کیلئے 100 ارب روپے مختص ہوں گے جبکہ 10 بلین ٹری سونامی کیلئے 14 ملین روپے رکھے گئے ہیں اور گزشتہ 2 سال میں اعلیٰ تعلیم کیلئے فنڈز میں دگنا اضافہ کیا گیا ہے۔ 

اسد عمر نے کہا کہ پی ٹی آئی ہمیشہ سے کہتی رہی ہے کہ سوشل سیکٹر میں سرمایہ کاری بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ملک کے تمام علاقوں کو یکساں ترقی ملنی چاہیے سچر پیدواری شعبے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ  نے کل تین شکایات کیں اور وفاق میں 4 بار پیپلز پارٹی کی حکومت آئی۔ سندھ کو ترقیاتی بجٹ کا بھرپور حصہ مل رہا ہے۔ میں سندھ میں نالے صاف کر رہا ہوں، کچرا ٹھا رہا ہوں۔ سندھ میں گلیاں اور نالیاں بنا رہے ہیں جو کہ صوبے کی ذمہ داری تھی۔