ظالم ، ظلم اور مظلوم

ظالم ، ظلم اور مظلوم

ظلم تاریکی ہے، اندھیرا ہے، اندھیر نگری ہے۔ ظلم ڈھانے والا ظالم کہلاتا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی روشن کائنات میں اجالوں کو اندھیروں کے حوالے کرنے والا ظالم ہوتا ہے۔ ظلم عدل کا الٹ ہے۔ عدل ہر چیز کو اپنے درست مقام پر رکھنے کا نام ہے۔ ظلم اسے الٹ پلٹ کر دیتا ہے۔ جہاں عدل ہوتا ہے وہاں دنیا روشن اور پُرسکون ہوتی ہے۔ عادل اس دنیا میں راحت، سکون اور روشنی کا سفیر ہوتا ہے۔ جب ہر چیز اپنے مقام پر آ جائے تو اسے ترتیب بلکہ حسنِ ترتیب کہتے ہیں۔ حسنِ ترتیب ہی حسن کا باعث ہوتا ہے— حسن کے مبعوث ہونے کا مقام یہی ہوتا ہے۔ حسن کسی خارجی دنیا سے ظہور نہیں کرتا ہے، بلکہ باطن میں موجود ہوتا ہے۔ جب وہ ترتیب میں حسن کو محسوس کرتا ہے تو باہر عود آتا ہے۔ کند جنس با ہم جنس پرواز۔ حسن بالعموم معصومیت پر مہربان ہوتا ہے، کیونکہ معصومیت احسن الخالقین کی تخلیق میں کوئی ذاتی تصرف نہیں کرتی۔ چالاکی اپنے مزاج اور مفاد کی خاطر جابجا تصرفات کرتی ہے— اور یہ تصرفات بالعموم تصرفاتِ نفس ہوتے ہیں۔
انسان نے اس دنیائے حسن کی ترتیب میں اس دعوے کے ساتھ تصرف و تبدل شروع کیا تھاکہ وہ اسے حسین تر بنائے گا لیکن حال اور ماضی دونوں گواہ ہیں — انسان کے ظلم پر یہی دو عادل گواہ کافی ہیں — کہ اس نے دنیا کو ترتیب دینے کے زعم میں اسے بے ترتیب کر دیا ہے۔ اس نے کائنات کے مقابلے میں ایک مصنوعی کائنات بنائی ہے۔ سورج کے مقابلے چراغ بنایا ہے، لیکن ترقی و تدبیر کا یہ چراغ ایسا ہے کہ :ع
 اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
خانہ خراب ہو گیا اور سب سے پہلے جو خراب ہوا، وہ اس کا خانہِ دل تھا۔ خانہِ دل کے خراب ہوتے ہی باہر بحر و برّ میں فساد پھیل گیا۔ خانہِ دل ویران ہو جائے تو باہر کی آبادی کام نہیں آتی۔ دل کا خانہ خراب ہو جائے تو خاندان خراب ہو جاتا ہے، شادی خانہ آبادی کے بجائے خانہ بربادی کے سندیسے دیتی ہے۔
اگر انسان فطرت کے بنائے ہوئے سورج، چاند اور ستاروں سے ہم آہنگ ہوتا تو یقیناً کوئی کائناتی نغمہ اس کے باطن سے سُر بکھیرتا ہوا باہر آتا اور سکون، امن اور آشتی سے اس دھرتی کا حسن دو بالا ہو جاتا، لیکن اس نے فطرت سے موافقت کے بجائے مخاصمت کا راستہ اپنایا، اور نتیجہ یہ نکلا کہ اس کا ظاہر اور باطن شور اور شورش سے بھر گیا۔ بلب کی ایجاد پر کسے خبر تھی کہ انسان کے سونے اور جاگنے کے اوقات غیر فطری ہو جائیں گے، اس کے دماغ میں میلوٹونین اور خون میں کارٹیسول کا لیول بگڑ جائے گا، موٹاپے سے لے کر کینسر تک متعدد موذی امراض ایک وبا کی طرح انسانوں کی بستی میں پھوٹ پڑیں گے۔ کہتے ہیں بیماری کا علاج موجود ہے، اسی سائنسی تصرفات کے سبب۔۔۔۔ لیکن جس کے سبب بیمار پڑے ہیں اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں:ع
تمہی نے درد دیا تم ہی دوا دینا
بہرطور انسان نے جاننے کے زعم میں ماننے سے اعراض کیا اور فطرت کے ضابطوں کو تہس نہس کرتا رہا۔ جب وہ کسی ضبط اور ضابطے میں نہیں رہا تو ربط اور رابطے سے بھی باہر ہو گیا۔ یوں کائنات کے ساتھ اس کا رشتہِ ربوبیت مخدوش ہو گیا۔ وہ کائنات سے تعاون لینے اور دینے کے بجائے اس کے استحصال کی کسی سائنسی تدبیر میں منہمک ہو گیا۔ وہ خالقِ کائنات کے روبرو ہونے کے بجائے دوبدو ہو گیا۔ کائنات ایک کلیت ہے، کائنات کی آغوش میں ٹھہرا ہوا مہمان انسان کائناتی نقشے میں کوئی بڑا بگاڑ تو پیدا نہ کر سکا البتہ اپنے آس پاس جنت زار مرغزارِ ارضی کو ایک جہنم زار ضرور بنا بیٹھا۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ اب اوزون کی تہہ میں شگاف ایسی موشگافیوں کے سبب وہ موسموں کی ترتیب برہم کرنے کا مجرم ٹھہرایا جا رہا ہے۔ سیلابوں، وقت بے وقت طوفانوں اور گرمی اور سردی کی شدتوں نے اس کے اجتماعی مزاج کو بھی شدت پسند کر دیا ہے۔
کارگاہِ سیاست ہو یا پھر کوئی عبادت گاہ، وہ ہر گاہ انتہا پسند ہو گیا ہے۔ اپنے مخالف فرد اور نظریے کو ہر حال میں کچلنا چاہتا ہے۔ وہ مکالمے کے بجائے مناظرے اور مجادلے کی طرف مائل ہے۔ مذہب پر انتہا پسندی کا لیبل لگانے والے اپنی قوتِ برداشت میں انتہائی کمزور پائے گئے۔ مذہبی انتہا پسندی کے ردِّ عمل میں وہ ایک دوسری انتہا تک پہنچ گئے۔ دین سے دوری نے اندر کسی ضبطِ آرزو کی پرورش نہ ہونے دی، اپنی سوچ اور عمل پر توازن کا میزان کیسے قائم ہوتا! باطن کا انکار کرنے والوں کو تحمل اور برداشت ایسی باطنی نعمتیں کیسے میسر آتیں!!
میزانِ عدل کا مفرور ظالم ہوتا ہے۔ آدمیت کی صف میں کھڑے ہونے کی پہلی شرط انصاف ہے، انسانیت کی صف قائم کرنے کے لیے عدل پر کھڑا ہونا ضروری ہوتا ہے — اور صفِ اوّل میں محسنین ہوتے ہیں۔ صوفیاء کی ایک تعریف یہ کی گئی ہے کہ وہ صفِ اوّل کے لوگ ہوتے ہیں۔
ظالم کے ظلم کی ابتدا گھر سے ہوتی ہے۔ اپنے وجود کی ترتیب کو درہم برہم کرنے والا ظالم ہوتا ہے۔ وہ اس تن میں جو رب سچے کا حجرہ ہے، شور و غوغا اور فساد برپا ہے — فساد فی الارض کا مرتکب ہوتا ہے۔ بسیار خوری سے لے کر بسیار آرامی تک ساری علّتیں پالنے والا اپنے وجود کو پالنے والے کے مقابلے میں کھڑا ہے، اسی طرح سگریٹ کی نکوٹین سے لے کر چائے، کافی اور کولڈ ڈرنک کی کیفین تک ان منشیاتِ خفیف کا خود کو عادی بنانے والا بھی اپنے وجود پر ظلم ڈھانے کا مرتکب ہوتا ہے، چہ جائے کہ الکوحل اور اسی قماش سے تعلق رکھنے والی دیگر منشیات!! اپنے وجود پر ظلم ڈھانے والا جلد یا بدیر باہر بھی ظلم کے تیر و تفنگ لے کر نکلے گا۔ جب تسکینِ وجود کی خواہش میں کوئی کمی رہ جاتی ہے، یا کسی کمی کا کوئی امکان پیدا ہو جاتا ہے تو وہ مرنے مارنے پر اتر آتا ہے۔ اسے مادی دنیا میں مادی اسباب و وسائل کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہو جاتی ہے، جسے پورا کرنے کے لیے وہ جھوٹ، مکر اور فریب کا سہارا لیتا ہے۔ ایسے ظالم کی پہلی سزا یہ ہے کہ اسے سچ اور سادگی کی دنیا سے دور کر دیا جائے تاکہ وہ تصنع اور فریب کی دنیا میں دن رات مشغول رہے اور اپنا سرمایہِ وقت اور وجود ضائع کرتا رہے۔ جو سچوں سے دور ہوتا ہے اسے یہ جھوٹی دنیا اپنے دامِ فریب میں گرفتار کر لیتی ہے۔ یہ کُوڑی دنیا کیا ہے؟ ناپاک اور بدبودار پانی میں تیرنے والا ایک سیاہ مردہ وجود جو زندہ ہونے کی اداکاری کر رہا ہے۔
دنیا دار بالعموم ظالم ہوتا ہے، اس کے ظلم کا دائرہ اپنے وجود سے نکل کر بیرونِ دریا پھیل جاتا ہے۔ مال اور مفاد کے حصول میں کیا گیا سارا سفر ظلم کا سفر ہے۔ اس کا راستہ اندھیر نگری اور منزل ہمیش اندھیرا ہے۔ دنیا دار کا سب سے بڑا ظلم یہ ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ کو سچ کہہ کر بیان کرتا ہے۔ سیاسیات سے لے کر سماجیات تک اس کا سارا اوڑھنا بچھونا جھوٹ ہوتا ہے۔ اب یہ بات خطرناک بھی اور دشوار بھی کہ سچ کے بیان میں سچا اور جھوٹا دونوں ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں — لیکن فریقین میں سے ایک سچا ہے اور ایک جھوٹا۔ جھوٹا شخص بھی اسی دین کے حوالے دیتا ہے جس دین کا پیروکار ایک سچا انسان ہوتا ہے۔ یہ فرق کیسے ظاہر ہو جب بظاہر دونوں ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں۔ سچے اور جھوٹے میں فرق ظاہرکرنے کے لیے قدرتِ کاملہ اس پلیٹ فارم پر امکانات کی لدی پَھدی مال گاڑی بھیجتی ہے، مال و مفاد کی یہ ٹرین دیکھ کر جھوٹا شخص فوراً اپنا پلیٹ فارم، فارم اور یونیفارم چھوڑ دے گا۔ سچا وہیں کھڑا رہ جائے گا۔ گویا قیام سچ اور جھوٹ میں ایک فرقان ہے۔ سچا انسان مظلومیت کی چکی سے گزارا جاتا ہے۔ مظلومیت سہنے میں اس کی ہمت اور استقامت اس کے سچا ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ مظلوم شخص اس دنیائے دگردوں میں ایک حجّت بن کر سچ اور جھوٹ میں فرق کو نمایاں کرتا ہے۔ جو مظلوم بننے کی ہمت نہیں رکھتا وہ ظالموں میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہاں مظلومیت اضطراری نہیں اختیاری ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کے ایک قول کی تفہیم ہو رہی ہے ’’ظالم بننے سے بہتر ہے مظلوم بن جاؤ‘‘ ظالم حصول اور وصول کی دنیا کا مسافر ہے، مظلوم اصول پر قائم ہے۔ تاریخِ انسانی میں سچائی کا سب سے بڑا قافلہ کربلا سے گزرنے والا حسینی قافلہ ہے۔ یہ قافلہ ابھی تک رواں دواں ہے۔ سچے انسان کرب و بلا کے اس قافلے میں شامل ہونے کو اپنے لیے سعادت تصور کرتے ہیں، اسے سرمایہِ ایمان سمجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ظلم پر خاموش اور غیر جانبدار رہنا ظالم کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ وہ کسی بھی حالتِ جبر میں کسی بھی یزید اور زیاد کے دستِ باطل پر بیعت نہیں کرتے۔

مصنف کے بارے میں