اہداف حاصل نہ ہوسکے، مہنگائی میں اضافہ، آمدن میں کمی، معاشی ترقی 0.29 فیصد رہی : اقتصادی سروے، ڈالر کی قیمت 50 روپے کم ہونی چاہیے: اسحاق ڈار

اہداف حاصل نہ ہوسکے، مہنگائی میں اضافہ، آمدن میں کمی، معاشی ترقی 0.29 فیصد رہی : اقتصادی سروے، ڈالر کی قیمت 50 روپے کم ہونی چاہیے: اسحاق ڈار

اسلام آباد : وزیر خزانہ نے اقتصادی سروے رپورٹ پیش  کردی ہے۔بیشتر معاشی اہداف حاصل نہ ہوسکے۔اسحا ق ڈار کہتے ہیں بجٹ عوام کی زندگی بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔اگلے سال کیلئے 5اہداف مقرر کئے ہیں ۔2017میں پاکستان  دنیا کی 24ویں معیشت بن چکی تھی ۔بدقسمتی سے 2022میں پاکستان 47ویں نمبر پر آگیا۔ہم حکومت نہ سنبھالتے تو ملک کا پتانہیں کیا حال ہوتا۔

  

اقتصادی سروے پیش کرتے اسحاق ڈار نے کہا کہ رواں مالی سال معاشی ترقی کی شرح 0.29 فیصد رہی۔گذشتہ مالی سال میں 6.1 فیصد رہی۔۔زراعت کے شعبے نے 1.55 فیصد شرح سے ترقی کی  جبکہ صنعتی شعبے کی ترقی منفی 2.94 فیصداور، خدمات کی شرح  نمو 0.86 فیصد رہی۔ 

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پیش کیے جانے والی مالی سال 23-2022 کے اکنامک سروے کے مطابق موجودہ مالی سال زرعی شعبے میں ترقی 1.55 فیصد رہی جو گذشتہ مالی سال 4.27 فیصد رہی۔

صنعتی شعبے کی ترقی موجودہ مالی سال میں منفی 2.94 رہی جو گذشتہ مالی سال میں 6.83 فیصد رہی۔ موجودہ مالی سال میں خدمات کے شعبے میں 0.86 فیصد رہی جو گذشتہ مالی سال میں 6.19 فیصد تھی۔

اکنامک سروے کے مطابق مینوفیکچرنگ کے شعبے میں ترقی منفی 3.91 فیصد رہی جو گذشتہ مالی سال میں 10.86 فیصد تھی۔ تعمیراتی شعبے میں میں گروتھ 5.53 فیصد منفی رہی جو گذشتہ مالی سال میں میں 1.90 فیصد سے بڑھی تھی۔

اقتصادی سروے میں پاکستان کی فی کس آمدنی موجودہ مالی سال میں 11.2 فیصد کمی کے بعد 1568 ڈالر تک گر گئی ہے یہ گذشتہ مالی سال میں 1765 ڈالر تھی۔ ملک میں فی کس آمدنی میں کمی کی وجہ روپے کی قدر میں کمی، ملکی معاشی ترقی میں کمی ہے۔

اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق سیلاب، عالمی کساد بازاری اور  سخت اقتصادی فیصلے شرح نمو میں کمی کا باعث بنے۔  جولائی تا مئی 2023 اوسط افراط زر 29.2 فیصد رہا۔ مہنگائی کی بڑی وجہ عالمی مارکیٹ اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہے ۔سیلاب کی وجہ سے اہم فصلوں کا نقصان ہوا۔ مہنگائی کی وجہ سیاسی عدم استحکام اور روپے کی قدر میں کمی بھی ہوئی ۔ 

پریس کانفرنس میں وزیرخزانہ  اسحاق ڈار نے بتایا کہ   ریونیو وصولی کا بڑا حصہ سود کی ادائیگی پر خرچ ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی  دور میں قرضوں اور واجبات میں 100 فیصد اضافہ کیا گیا۔ قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کا خرچہ 7 ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔  ان معاملات نے ملک کو بڑا نقصان پہنچایا

اسحاق ڈار کے مطابق  جب حکومت سنبھالی تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھتا جا رہا تھا۔ حکومت نہ سنبھالتے تو پتہ نہیں پاکستان کہاں کھڑا ہوتا۔ حکومت سنبھالتے ہی  ہمارا ہدف معیشت،توانائی اور انتہا پسندی کا خاتمہ تھا۔   جب ذمہ داری سنبھالی تو ہماری فنانسنگ ذمہ داریاں بھی بڑھتی جا رہی تھیں، معاشی استحکام کے لیے کوشش کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے اپنی ترجیحات کو روایتی ترقیاتی تصور سے ہٹ کر 5 ایز کا احاطہ کیا ہے۔بجٹ چیلنجز پر قابو پانے اورعوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔حکومت سنبھالتے ہی  ہمارا ہدف معیشت،توانائی اور انتہا پسندی کا خاتمہ تھا۔ حکومت نے مجموعی معاشی حالات بہتر بنانے کیلئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے۔ 

وزیر خزانہ کا کہنا تھاکہ2013 میں جب اقتدار سنبھالا تو ملک میں 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ تھی۔ انتہا پسندی کا خاتمہ بھی ہمارے ایجنڈے میں شامل ہے۔ اس وقت ہم ای پاکستان اور امپاورمنٹ پر بھی کام کر رہے ہیں۔معاشی استحکام کا حصول اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ سابق حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث ہم دنیا کی 47ویں معیشت بنے۔ 2017میں پاکستان معاشی دنیا کی 24ویں بڑی معیشت تھی۔

  

انہوں نے کہا کہ ہم سب کو مل کر معاشی استحکام کیلئے کوشش کرنی چاہئے۔سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔ ملک کو وہاں لے جانا چاہتے ہیں جہاں پاکستان 2017 میں پہنچ چکا تھا۔نوازشریف دور میں اسٹاک مارکیٹ 100 بلین ڈالر کراس کرچکی تھی۔رواں مالی سال انتہائی مشکل تھا۔میکرواکنامک استحکام کی بحالی کیلئے پلان تیار کیا ہے۔ 

اسحاق ڈار نے کہا کہ مقصد میکرواکنامک استحکام کی بحالی ہے۔میکرواکنامک استحکام حکومت کا وژن ہے۔24 سے 47ویں معیشت تک جانے میں بہت سارے محرکات ہیں۔2013میں 3 ایز،اس  سال 5 ایز کا نام دیا ہے۔ایکسپورٹ،ایکویٹی،امپاورمنٹ،انوائرنمنٹ،انرجی کا نام دیا گیا۔ 

انہوں نے کہا کہ ہمیں ملک کو ترقی کے راستے پر لانا ہے۔ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بیرونی اکاؤنٹس کا ہے۔ معیشت کی گراوٹ رک چکی ہے،معاشی استحکام کی طرف جارہے ہیں۔ ہمارے گزشتہ دور میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری 100 ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ گزشتہ حکومت کی 6.1 فیصد کی ترقی صرف دعوے ہی تھے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ حکومت میں شرح سود 7 فیصد سے بڑھ کر 14 فیصد پر چلا گیا۔ جب اقتدار  سنبھالا تو مالیاتی خسارہ بہت زیادہ بڑھا ہوا تھا۔ہم نے گرتے ہوئے زرمبادلہ ذخائر کو سنبھالا۔ 2018میں تجارتی خسارہ 30.9 ارب ڈالر تھا جو بڑھ کر 39.1 ارب ڈالر تک پہنچا۔ پی ٹی آئی حکومت میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بھی 4.7 فیصد کا اضافہ ہوا۔پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بیرونی سرمایہ کاری 2.8 ارب ڈالر سے کم ہوکر 1.9 ارب ڈالر پر آگئی۔ 

اسحاق ڈار کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی دور میں گردشی قرضہ 1148 ارب روپے سے بڑھ کر 2467 ارب تک پہنچا گیا تھا۔2018 میں کل حکومتی قرضہ 25 کھرب روپے تھا۔گلوبل انفلیشن میں 85 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔وزیر اعظم نے سیکرٹری جنرل یو این کیساتھ جنیوا میں ڈونر کانفرنس کی۔اس کانفرنس میں 8 بلین ڈالر سے زائد پلیجز ملے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کیساتھ 2019 کا پروگرام 2022 میں ختم ہوجانا چاہیے تھا۔نوازشریف دور میں واحد آئی ایم ایف پروگرام مکمل کیا گیا تھا۔گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف سے بہت مشکل معاہدے کیے۔جب ڈی ویلیوایشن ہوتی ہے تو مہنگائی بڑھتی ہے۔ جب مہنگائی بڑھتی ہے تو پالیسی ریٹ بڑھانا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگ گھبرائے ہوئے ہیں، مارکیٹ میں منفی تاثر موجود ہے۔گزشتہ حکومت نے کرنسی کو مادرپدر آزاد چھوڑ دیا تھا۔جب میں آیا تو ڈالر 217 تک آیا۔ڈالر میں آرٹیفشل 40 سے 45 روپے کا گیپ ہے۔جو ڈالر اور سونا جمع کررہے ہیں وہ یہ چھوڑ دیں تو سب ٹھیک ہو جائیگا۔

انہوں نے کہا کہ بلوم برگ کے مطابق ڈالر کی قیمت 245 تک ہونی چاہیے تھی۔ہم نے بیرونی ادائیگیاں اپنے وقت پر کیں۔90 فیصد تک ایل سیز کو کھول دیا گیا ہے۔آئی ایم ایف پروگرام کے لیے بہت بھاری سیاسی قیمت ادا کی۔ پاکستان کے لیے بہت مشکل فیصلے کیے گئے۔ آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر اداروں سے 70 کروڑ ڈالر ملنا باقی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لوگ باہر بیٹھ کر کہتے ہیں پاکستان ابھی تک سری لنکا کیوں نہیں بنا۔ ایران، افغانستان اور روس سے بار ٹرٹریڈ کا فیصلہ ہوا ۔تینوں ممالک کے ساتھ بینکنگ کے مسائل ہیں۔