جسٹس فائز عیسیٰ کیس : حکومت ہمیں نہ بتائے ہمیں کیا کرنا ہے, سپریم کورٹ

جسٹس فائز عیسیٰ کیس : حکومت ہمیں نہ بتائے ہمیں کیا کرنا ہے, سپریم کورٹ
کیپشن: جسٹس فائز عیسیٰ کیس ،حکومت ہمیں نہ بتائے ہمیں کیا کرنا ہے: سپریم کورٹ
سورس: file

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواست پر  جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔

نظرثانی کیس کی سماعت براہ راست نشر کرنے کی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر وفاقی حکومت نے جواب جمع کرادیا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی طرف سے جمع کرائےگئے جواب میں  جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کی مخالفت کی گئی ۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ کسی میڈیا ہاؤس نے عدالت میں براہ راست نشریات کی درخواست نہیں دی۔ براہ راست نشریات میڈیا کا حق ہے کسی فریق کا نہیں۔ حکومت کا موقف ہے یہ عدالتی نہیں سپریم کورٹ کا انتظامی معاملہ ہے۔ عدالتی کارروائی میں استعمال ہونے والی زبان عام فہم نہیں ہوتی۔ پارلیمان میں بحث عمومی اور عدالت میں ٹیکنیکل ہوتی ہے

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان  نے کہا کہ عدالتی اور پارلیمانی کارروائی کی براہ راست نشریات میں فرق ہے۔ براہ راست نشریات میڈیا کا حق ہے کسی فریق کا نہیں۔ سپریم کورٹ نے ہمیشہ میڈیا کی آزادی کے حق میں بات کی۔ سپریم کورٹ کا صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ براہ راست نشریات کی اجازت دے یا نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ  براہ راست نشریات عدالت کا اختیار ہے وفاقی حکومت کا نہیں۔ وفاقی حکومت ہمیں نہ بتائے کہ ہمیں کیا کرنا ہے ۔ وڈیو لنک پر سماعت بھی ٹیکنالوجی کی بدولت ہی ہوتی ہے ۔ ٹیکنالوجی کی مدد سے عدالت کو کئی معاملات میں آسانی ہوئی ۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ  جسٹس فائزعیسیٰ کا انحصار غیرملکی عدالتوں کے فیصلوں پرہے۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کہتے ہیں میڈیا پر پابندیاں ہیں۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 17 مارچ تک ملتوی کردی۔