ذیابیطس……وزن میں کمی، غذائی تبدیلیاں اور ورزش

ذیابیطس……وزن میں کمی، غذائی تبدیلیاں اور ورزش

جب کسی شخص کو کہا جائے کہ اپنی غذا کو بہتر کریں، سادہ غذا کی طرف لوٹ جائیں یا حرکت اور معمولات میں اعتدال پیدا کریں تو سب سے عام بہانہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ”میں پھنسا ہوا ہوں اور اتنا کام ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے لئے میرے پاس وقت نہیں“،لیکن اچانک جب اسی شخص کو ذیابیطس کی وجہ سے دل کا دورہ پڑ جائے یا بینائی متاثر ہونے لگے یا گردوں کی صحت خراب ہو جائے تو فوراً اس مریض کے پاس اپنی غذا ٹھیک کرنے کا وقت نکل آتا ہے اور ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کا بھی۔ علی الصباح اٹھ کے ورزش شروع کر دی جاتی ہے اور ماہر غذائیات کے ساتھ مشورے بھی،لیکن اس ساری مشقت سے اتنا فائدہ نہیں ہو پاتا اس لئے کہ شوگر کے مسلسل زیادہ رہنے کی وجہ سے جسم کے اندر شریانوں کو نا قابل تلافی نقصان ہو چکا ہوتا ہے، اعضائے رئیسہ، دل، دماغ، گردے اور بینائی بھی متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ذیابیطس سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ غذائی پرہیز کیا جائے۔ قدرتی اجزاء سے حاصل ہونے والی غذاؤں کا استعمال کیا جائے، بیکری، ریفائن نشاستے اور کولا مشروبات سے دور رہا جائے۔ اسلئے کہ یہ غذائیں کھانے کے فوری بعد خون میں شوگر کی مقدار تیزی سے بڑھ جاتی ہے اور اگر جسم میں انسولین کی مقدار مناسب نہ ہو تو بلڈ شوگر تیزی سے بڑھ جاتا ہے اور کافی دیر تک اس کی مقدار میں اضافہ رہتا ہے۔ اس کے برعکس اگر غذاؤں کو قدرتی ذرائع سے حاصل کیا جائے تو غذا کے ساتھ فائبرز یا ریشے بھی شامل ہوتے ہیں اور ایسی کاربوہائیڈریٹس انسانی صحت کے لئے نسبتاً بہتر ہیں۔ ان میں سے شوگر آہستہ آہستہ نکل کرجسم میں داخل ہوتی ہے اسلئے خون میں شوگر کا لیول اچانک زیادہ نہیں ہوتا۔
ذیابیطس کے مریض کو چاہئے کہ تازہ پھلوں اور سبزیوں کے ساتھ ساتھ سلاد کا استعمال کرے۔پھلوں کے استعمال کے دوران بہتر ہے کہ پھلوں کا جوس نکالنے کے بجائے ان کو کھایا جائے۔ اسی طرح ملک شیک بنانے کے بجائے کیلا یا سیب کاٹ کر کھانا بہتر ہے۔ کینو کو جوس کے بجائے چھیل کر کھا لینا مریض کے لئے مفید ہے۔ ذیابیطسی مریضوں کو چاہئے کہ پھلوں میں بھی زیادہ میٹھے پھلوں کے بجائے کم میٹھے پھل استعمال کریں اور جوس والے پھلوں کے بجائے سخت یا نیم سخت پھلوں کا استعمال کریں جس میں فائبر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ بیکری کے تمام آئٹمز بشمول بسکٹ، کیک اور ہر قسم کی کینڈیز کا استعمال خطرناک ہو سکتا ہے اس لئے کہ اس میں ریفائنڈ نشاستے موجود ہیں۔ اسی طرح ہر قسم کے مصنوعی جوسز جو ملکی یا غیرملکی ہیں، وہ نقصان دہ ہیں۔ اس لئے کہ ان میں سکرین کے ساتھ ساتھ مٹھاس بھی ہوتی ہے جو انسان میں شوگر کی مقدار کو بری
طرح متاثر کرتی ہے۔ ذیابیطس کے مریض گوشت کو مناسب مقدار میں استعمال کر سکتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ ان کے ساتھ چربی کم سے کم استعمال کی جائے اس لئے کہ نشاستے کے بعد چربی یعنی فیٹس بھی انسانی صحت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ روٹی میں چھنے ہوئے آٹے کی روٹی یا سفید آٹے کی روٹی کے بجائے چوکر ملی روٹی یا براؤن آٹے کی روٹی زیادہ بہتر ہے۔ اس سے شوگر کی مقدار آہستہ آہستہ بڑھتی ہے۔ کھابوں کے شوقین حضرات حلوا پوری کے استعمال سے گریز کریں اور سالن میں چکنائی کا استعمال کم سے کم رکھا جائے۔ کم گھی میں مناسب آنچ پر تلا ہوا سالن زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ ذیابیطس کے مریض پھلوں کے ساتھ ساتھ ڈرائی فروٹ کا استعمال بھی مناسب مقدار میں کر سکتے ہیں۔ مریض کو چاہئے کہ کھانے کو مختلف اوقات میں تقسیم کر کے تھوڑا تھوڑا کھائیں۔ دن میں دو وقت کے بجائے چار یا پانچ وقت تھوڑا تھوڑا کر کے کھایا جائے۔ صبح ناشتے، دوپہر کے کھانے اور رات کے کھانے کے دوران ہلکا پھلکا سنیکس لیا جا سکتا ہے۔ ناشتے، کھانے اور دوپہر کے کھانے کی مقدار کو کم کر دیا جائے اور اس کمی کو دو یا تین سنیکس سے پورا کیا جائے۔ ایسا کرنے سے آہستہ آہستہ جسم میں شوگر کی مقدار بڑھے گی اور بلڈ گلوکوز ایک مناسب حد میں رہے گی۔ ہمارے سماجی رسم ورواج کے مطابق ہر آئے گئے کے ساتھ چائے، بسکٹ اور کولڈ ڈرنک کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ ضروری ہے کہ بیکری آئٹمز کو کم سے کم استعمال کیا جائے۔ چائے کے استعمال کے دوران چینی سے بچا جائے اور قہوہ کا استعمال بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے لیکن اس میں چینی نہ ڈالی جائے۔
شوگر کے مریض کے لئے ورزش انتہائی مفید ہے۔ جسم میں پٹھے اور دماغ صرف اور صرف شوگر استعمال کرتے ہیں۔ جو افراد دن میں اپنے پٹھوں کو زیادہ استعمال کرتے ہیں، ورزش کو اپنا معمول بنا لیتے ہیں، سارا دن بیٹھنے کے بجائے چلنا پھرنا اپنا شعار بنا لیتے ہیں ان میں بلڈ شوگر ایک خاص حد تک رہتی ہے۔ شوگر کے مریضوں کو علی الصباح کم از کم آدھے سے ایک گھنٹے تک تیزی سے واک کرنی چاہئے۔ اس طرح بلڈشوگر میں کمی آئے گی۔ جو لوگ علی الصباح سیر نہ کر سکیں انہیں وہ شام کے پچھلے پہر کسی قریبی باغ میں جا کر آدھے سے ایک گھنٹے تک واک کریں۔ گھر میں چلنے پھرنے سے بہتر ہے کہ پرفضا مقام پر صبح یا شام میں واک کو اپنی روٹین بنایا جائے۔ واک کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کھانا کھائے ہوئے کم سے کم تین گھنٹے کا وقت گزر چکا ہو۔ بھاگنے کی نسبت زیادہ بہتر ہے کہ تیزی سے چلا جائے اور اتنا تیز کہ پسینہ آنا شروع ہو جائے۔ کچھ ترکیبیں ایسی ہیں جن سے واک کی کمی پوری کی جا سکتی ہے۔ عام سودا سلف لانے کے لئے گاڑی یا موٹرسائیکل کے بجائے پیدل جایا جائے، لفٹ استعمال کرنے کے بجائے سیڑھیوں کا استعمال کیا جائے اور دفتری اوقات میں چلتے پھرتے بھی آپ واک کی کمی کو پورا کر سکتے ہیں۔ مریض جتنا زیادہ حرکت اور معمولات میں اعتدال پیدا کرے گا، اتنا ہی شوگر کی مقدار خاص حد تک رہے گی۔ واک کرنے سے شوگر آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور ذیابیطس سے ہونے والے اثرات کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ورزش کرنے والے لوگوں میں ذیابیطس کے لئے ادویات کی ضرورت بھی کم ہو جاتی ہے یہاں تک کہ انسولین کے بھی کم یونٹ استعمال کئے جاتے ہیں۔
شوگر کنٹرول کرنے کے لئے وزن کو ایک خاص حد میں رکھیں۔ اگر وزن کو مناسب حد میں رکھا جائے تو اس سے شوگر کنٹرول ہونا شروع ہو جاتی ہے اور مریض بہتری کی طرف آ جاتا ہے۔ جیسے جیسے وزن زیادہ ہوتا ہے تو انسولین اپنا اثر کرنا کم کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں خون میں شوگر کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور ذیابیطس کے مضر اثرات آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ وزن کو ایک خاص حد میں رکھیں اور جیسے ہی اس میں اضافہ ہونے لگے تو اپنے ماہر غذائیات یا فزیوتھراپسٹ سے رابطہ کر کے اس کو مناسب حد میں لے آئیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ جب وزن 20 سے 25 فیصد زیادہ ہو جائے تو اس کا بوجھ انسان کی ہڈیوں اور خاص طور پر مہروں پر پڑتا ہے اور یہ کمزور ہونا شروع ہو جاتے ہیں، چلنے پھرنے کی شکایات شروع ہو جاتی ہیں، جوڑ جواب دے جاتے ہیں، انسولین کی وہی مقدار جو ایک نارمل شخص میں بلڈ گلوکوز کو نارمل حدود میں رکھتی تھی، وہ کارآمد نہیں رہتی جس کے نتیجے میں شوگر کی مقدار بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ موٹاپے کے بعد جن لوگوں میں دوا سے شوگر کو کنٹرول کیا جاتا تھا وہ دوا بھی کارگر ثابت نہیں ہوتی اور مرض بگڑ جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ وزن کو کنٹرول میں رکھا جائے۔ ایسے افراد جو پری ڈائیبیٹک ہوں یعنی جن میں نہار منہ شوگر کی مقدار100 سے 125 mg/dl ہو یا GTTکے بعد خون میں شوگر کی مقدار 140 سے 199 mg/dl تک ہو وہ آگے چل کر ذیابیطس کا شکار ہو سکتے ہیں اور ایسے افراد میں ذیابیطس نہ بھی ہو تو دل کے امراض بڑھ جاتے ہیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ پری ڈائیبیٹکس کو وزن میں 5 سے 10 فیصد کمی کرنے سے بھی کافی افاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس لئے ذیابیطس کے لوگوں کو سب سے پہلے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرنا چاہئے، مرض کی تشخیص کو بروقت کیا جانا ضروری ہے اور تشخیص کے بعد ایک مکمل لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا جس میں خوراک کو قدرتی اجزاء کے مطابق استعمال کرنا ہو گا اور غذاؤں کو ان کے قدرتی ماخذ سے حاصل کرنا ضروری ہے۔ ریفائنڈ شوگر یا کولا مشروبات سے حتی الامکان بچاؤ کرنا اور ورزش اور واک کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ضروری ہے۔ بہت مرتبہ یہ دیکھا گیا ہے کہ صرف خوراک میں تبدیلی، حرکت اور معمولات میں اعتدال اور ریفائنڈ شوگر کو اپنی غذا سے منہا کر کے ہم شوگر کے مرض کو کنٹرول بھی کر سکتے ہیں اور اس سے ہونے والے مسائل کو روک بھی سکتے ہیں۔