نازیبا ویڈیوز

نازیبا ویڈیوز

ہم سمجھتے تھے کہ معاملہ تحریک انصاف ایف آئی اے کے پاس لے کر جائے گی کہ سوشل میڈیا پر ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے مگر مسلم لیگ ن شکوہ کناں ہے کہ مریم نواز کی جعلی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شئیر کی جا رہی ہیں۔ ایف آئی اے کو اس پر کاروائی کے لیے کہا گیا ہے۔ وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ نے سخت وارننگ بھی جاری کرائی مگر اس کے باوجود حالات میں بہتری دکھائی نہیں دے رہی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پیکا ایکٹ کو اسلام آباد ہائیکورٹ ختم کر چکی ہے۔ عمران خان کے حوالے سے نا زیبا ویڈیوز کا شور بھی ایک عرصہ سے سن رہے ہیں۔ ویسے ان ویڈیوز کی اتنی تشہیر ان کے مخالفین نے نہیں کی جتنی عمران خان اور ان کے حواریوں نے کر دی ہے۔ اسے حفاظت خود اختیاری کا نام دیا جاتا ہے مگر حقیقت میں جن لوگوں کو ان معاملات کا علم نہیں ہوتا وہ بھی مستعد ہو گئے ہیں کہ دیکھیں تو سہی اس میں ہے کیا؟
سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کی کردار کشی کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔ تحریک انصاف نے اس کام کو باقاعدہ ایک انڈسٹری کی صورت دی ہے اور اس کام کے لیے سوشل میڈیا کی ٹیمیں دن رات مصروف عمل ہیں۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ شائد سوشل میڈیا صارفین محبت اور نفرت میں یہ سب کر رہے ہیں مگر اب یہ علم ہوا ہے کہ یہ سب گند سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ڈال رہی ہیں۔ تحریک انصاف نے اس کی ابتدا کی تھی تو مسلم لیگ ن کیوں پیچھے رہتی۔ اس کے لوگ بھی اس میدان میں کود پڑے اور دھڑا دھڑ پوسٹیں شروع ہو گئیں۔
یہ گندا کھیل ایک عرصہ سے جاری ہے اور جب تک سوشل میڈیا اپنے عروج پر رہے گا سیاسی جماعتیں اور گروہ اس مکروہ دھندے میں ملوث رہیں گے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شائد اس سے ان کی فین فالوولنگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی پیمائش کا کوئی نہ کوئی پیمانہ ان لوگوں نے مقرر کر رکھا ہے۔ سوشل میڈیا کو اپنے اقدامات کی تشہیر سے زیادہ دوسروں کی کردار کشی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کاش انہیں علم ہوتا کہ اس رجحان کا معاشرے پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ چار پانچ ہزار اکاؤنٹس ایک ہی وقت میں ایک ٹرینڈ چلاتے ہیں اور اپنے ذہن کا گند سوشل میڈیا پر پھینک دیتے ہیں اور پھر سارا دن لوگ اس کا تعفن جھیلتے ہیں۔ موثر قانون سازی سے اس مسئلہ پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن جیسے ہی قانون بنتا ہے اس پر عملدرآمد کرنے والے ادارے قواعد و ضوابط میں ایسی شقیں ڈال دیتے ہیں کہ ان کے پاس عوام کے استحصال کرنے کے اختیارات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ 
سوشل میڈیا پر پھیلایا جانے والا گند فیک اکاؤنٹس کی پیداوار ہوتا ہے، ابھی تک ایسا کوئی میکنزم موجود نہیں ہے کہ ان فیکس اکاؤنٹس کو ختم کیا جا سکے۔ ایف آئی اے فیکس اکاؤنٹس کو ختم کروانے یا بلاک کروانے کے لیے سوشل میڈیا ایپس کی انتظامیہ سے رابطہ کرتی ہے مگر وہ کسی اور آئی ڈی سے متحرک ہو جاتے ہیں۔ اس کا مؤثر تدارک صرف یہی ہے کہ حکومتی سطح پر کوئی ایسی کوشش ہو جو فیک نیوز کو چیک کر سکے۔ فیکٹ چیک کرنے کا موثر نظام بنا دیں گے اور سوشل میڈیا کی موثر مانیٹرنگ کریں گے تو شائد حالات درست ہو جائیں۔ مریم نواز کی شکائت درج ہونے کے بعد ایف آئی اے متحرک ہوئی ہے لیکن اسے باقی لوگوں کی شکایات کو بھی اسی سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ 
اصل خرابی اس وقت ہوئی جب سیاسی جماعتوں نے یہ سمجھنا شروع کیا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی رائے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس کے موثر استعمال سے لوگوں کی اجتماعی رائے کو بدلا جا سکتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریک انصاف کو صاف ستھری اقدار کو پروان چڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی مگر بدقسمتی سے اس نے معاشرے میں بدتمیزی کے کلچر کو فروغ دیا۔ میں کئی ایسے افراد کو جانتا ہوں جو تحریک انصاف کی اس مہم کو باقاعدگی سے چلاتے ہیں اور ظاہر ہے اس کے ثمرات سے مستفید بھی ہوتے ہیں۔ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں اتنی توجہ اپنے کام پر نہیں دی جتنی توجہ وہ ترجمانوں پر دیتے تھے۔ ان کی اصل فورس تو یہی لوگ ہیں جو صبح شام گند پھیلانے کے کام میں مصروف ہیں۔
آج کل عمران خان کی ویڈیوز کا بہت چرچا ہے اور لوگ بے چینی سے ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایک عام عقل کا بندہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ ان ویڈیوز میں کیا ہو گا تو پھر اتنی بے چینی کیوں؟ عمران خان بھی اپنی تقریروں میں یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں بدنام کرنے کے لیے جعلی ویڈیوز پھیلانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ان کی ٹیموں نے ڈیپ ٹیکنالوجی کے عنوان سے ٹرینڈ چلائے کہ اس کے استعمال سے کسی کی بھی ویڈیو بنائی جا سکتی ہے۔ ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ عمران خان کو علم ہے کہ ان کی ویڈیوز موجود ہیں لیکن اول سوال یہ ہے کہ یہ ویڈیوز کو ریکارڈ کرنے والے کون ہیں۔ وہ کون سے عناصر ہیں جنہوں نے ملک کے وزیراعظم کی ویڈیوز بنا لیں تاکہ بوقت ضرورت انہیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عمران خان کا ماضی ان معاملات کے حوالے سے کوئی تابناک نہیں ہے اس لیے عمران خان کے حوالے سے جب ان ویڈیوز کی بات ہوتی ہے تو اکثریت اسے جعلی نہیں بلکہ اصل ہی سمجھتی ہے۔ ان معاملات کے ہوتے ہوئے ان کے کارکن عمران خان کو اپنا سب کچھ سمجھتے ہیں تو اصل پریشانی کی بات یہ ہے۔ ان معاملات میں بھی انہیں امریکی مداخلت نظر آتی ہے۔ کسی نے آج تک یہ سوال نہیں اٹھایا کہ عمران خان کا کریکٹر ڈھیلا ہے تو ان سے کنارہ کشی کی جائے۔ جج ارشد ملک کی ویڈیوز بھی سامنے آئی تھیں اور ان کو ریلیز کرنے کا کریڈٹ مسلم لیگ ن کو دیا جا رہا ہے اور اب عمران خان کی ویڈیوز اگر ریلیز ہوتی ہیں تو اس کا سہرا بھی مسلم لیگ ن کے سر باندھنے کی تیاری ہو رہی ہے۔
مغربی معاشرے جہاں مادر پدر آزادی ہے وہاں بھی لوگ اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے لیے ایک معیار مقرر کرتے ہیں لیکن پاکستان میں اس طرح کا کوئی معیار نہیں ہے۔ آپ خود ہی بتائیں کہ وہ کون سا ملک ہے جہاں پر عمران خان کے کردار جیسا ایک بھی شخص حکومت پر براجمان ہوا ہو۔ بل کلنٹن کو تو ایک معمولی سی حرکت پر سیاسی نقصان اٹھانا پڑا تھا لیکن پاکستان میں صاحب کی ان حرکات پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ 
ایف آئی اے کے ترجمان کی جانب سے ادارے کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری کردہ پیغام میں کہا گیا کہ ’ایف آئی اے نے سوشل میڈیا پر چلنے والی جعلی ویڈیوز کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ویڈیوز کو بنانے، پھیلانے میں ملوث افراد کے خلاف قید اور جرمانے کی شکل میں سخت قانونی کارروائی کی جائے گی، لوگوں کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ ان ویڈیوز کو شیئر کرنا بند کر دیں۔تاہم اگلے روز کارروائی کے حوالے سے کوئی تصدیق نہیں ہوسکی۔ ابھی تک ایف آئی اے نے یہ ڈیٹا عوام کے ساتھ شئیر نہیں کیا کہ اس میں ملوث کتنے لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ ایف آئی اے کو ان اکاؤنٹس کے خلاف بھی اسی مستعدی سے کارووائی کرنا چاہیے جو عمران خان کے خلاف پروپیگنڈہ میں شریک ہیں۔ انصاف کرنا ضروری ہے تو انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ ون وے ٹریفک کا نقصان ہی ہو گا۔
ڈیجیٹیل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد نے ایف آئی اے کی کاروائیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ اس کیس میں مسئلہ یہ ہے کہ ہر کوئی صرف اس لیے حرکت میں ہے کیونکہ اس بار کسی نے ایک بااثر شخص کے حقوق کی خلاف ورزی شروع کر دی ہے۔ وہ بھی شکوہ کناں ہیں کہ ایف آئی اے بھی اسی وقت متحرک ہوتی ہے جب کوئی بااثر شخصیت شکایت کرے۔انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ بالکل پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی کنول شوزب کے کیس کی طرح ہے اور ایف آئی اے نے ان کی شکایت کی فعال انداز میں پیروی کی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اہم نکتہ جو حکام کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ وزیر داخلہ کو کیوں مداخلت کرنی پڑی کیونکہ مریم نواز کی طرف سے خود درج کرائی گئی رپورٹ کو ایف آئی اے نے سنجیدگی سے نہیں لیا، لہٰذا لاہور یا کہیں اور کی کسی بھی عام خاتون کا کیا ہوگا، وہ ایف آئی اے پر کیسے دباؤ ڈالے گی۔نگہت داد سمیت بیشتر ماہرین نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو از سر نو تشکیل دے اور اگر آن لائن ہراساں کرنے کے مسئلے کو حل کرنا ہے تو پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کو دوبارہ ڈیزائن کرے۔
سچی بات یہ ہے کہ پیکا ایکٹ بہت خوفناک تھا لیکن اب یہ مطالبے سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں کہ اس ایکٹ میں مناسب ترامیم کے ساتھ کوئی ایسا میکنزم ضرور بنایا جائے کہ لوگوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔ سوشل میڈیا کو مادر پدر آزادی کا معاشرے کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔ آزادی اظہار رائے کا مطلب اپنے اپنے سیاسی خیالات کے اظہار کی مکمل آزادی ہے مگر اس آزادی کو غلط استعمال کر کے غلط اور گھٹیا پروپیگنڈے کو بند کرنے کا قانون بنایا جانا ضروری ہے۔

مصنف کے بارے میں