بنگلا دیشی حکومت کا احسن اقدام، خواجہ سراﺅں کی دینی تعلیم کیلئے مدرسے کا آغاز

Good move by Bangladesh government, launch of madrassa for Islamic education of eunuchs
کیپشن: فائل فوٹو

ڈھاکہ: بنگلا دیش کی حکومت نے انتہائی احسن اقدام اٹھاتے ہوئے ملک میں خواجہ سرائوں کو دینی تعلیم کیلئے ایک مدرسے کا آغاز کر دیا ہے، اس میں ابتدائی طور پر 150 مخنث افراد کو داخلہ دیا گیا ہے۔

اس خصوصی مدرسے میں تعلیم کیلئے عمر کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس مدرسے کی عمارت تین منزلہ ہے جس میں خواجہ سرائوں کیلئے رہائش اور کھانے پینے کا بھی بندوبست کیا گیا ہے۔ اس مدرسے میں ناصرف انھیں اسلامی تعلیمات سکھائی جائیں گی بلکہ مختلف فنون میں تربیت کا بھی اہتمام رکھا گیا ہے تاکہ وہ کوئی ہنر سیکھ کر برسرروزگار ہو سکیں۔

اسلامک تھرڈ جینڈر سکول کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں جدید تقاضوں کے ہم آہنگ رہتے ہوئے ٹیکنالوجی، سائنس، ریاضی اور انگلش زبان بھی سکھائی جائے گی۔ اس وقت ڈیڑھ سو کے لگ بھگ خواجہ سرا اس میں زیر تعلیم ہیں۔

خیال رہے کہ جنوبی ایشیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے خواجہ سرائوں کو انتہائی حقارت سے دیکھا جاتا ہے، ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کے واقعات عام ہیں۔ عام معاشرہ تو کیا ان کے اپنے گھر والے ہی انھیں دھتکارتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مختلف نفسیاتی بیماریوں کو شکار ہو جاتے ہیں۔

ایسے خواجہ سرائوں کی بڑی تعداد گھروں سے باہر چلی جاتی ہے اور اپنی کمیونٹی میں رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ ہمارے جیسے معاشروں میں ان کی اخلاقی یا سماجی تربیت کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتا۔ بنگلا دیش میں ان کیلئے خصوصی مدرسے کے قیام کو احسن اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔

بنگلا دیش میں انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی این جی اوز کے مطابق وہاں خواجہ سرائوں کی مجموعی تعداد تقریباً پندرہ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس سے قبل اہم اقدا اٹھاتے ہوئے بنگلا دیشی حکومت نے ملک میں رہنے والے تمام خواجہ سرائوں کو 2013ء میں ووٹ دینے کا حق دیدیا تھا۔