حضرت صالحؑ کی اونٹنی اور پاکستان

حضرت صالحؑ کی اونٹنی اور پاکستان

حالیؔ کے اس مصرعے کہ پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے،کی عملی تعبیر دیکھنی ہو تو ہماری صحافت اورسیاست کو دیکھ لیں۔ صحافیوں کے نام پر چھاتہ برداروں کی فوج ظفر موج صحافت پر مسلط ہے۔ ان کی گفتگو سنیے تو محسوس ہوتا ہے کہ جناب تجزیہ نہیں بلکہ خود پر ہونے والے نزول کو بیان کررہے ہیں۔ چھاج کے ساتھ ساتھ اب ہر چھلنی نے بھی بولنا شروع کردیا ہے کہ ”مجھے کچھ ہوگیا توذمہ دار فلاں فلاں ہوگا“۔ سیاست دانوں کو دیکھ لیجئے اپنی پاکی داماں کی حکایات اور مخالف میں موجود و ناموجود برائیاں بیان کرتے نہیں تھکتے۔سیاست مسائل کے حل سے نکل الزامات تک آپہنچی ہے اور صحافت حق اور سچ کے بجائے ضلالت کے پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے۔ مختار مسعود مرحوم نے آوازِ دوست میں لکھا ہے کہ جب خواہش قلبی اور فرائضِ منصبی ایک ہوجائیں تو اسے خوش قسمتی سمجھنا چاہئے۔ مگر ہمارے یہاں فرض نے پیشے اور ہوسِ زر کی شکل اختیار کرلی ہے جس کے نتائج ہم دیکھ رہے ہیں۔ 
اشفاق احمد مرحوم کی کتاب زاویہ میں ایک باب ہے ”حضرت صالحؑ کی اونٹنی اور پاکستان“۔ اس میں وہ بتاتے ہیں کہ اونٹ کے ذکر پر اُن کے ذہن میں اس اونٹنی کا خیال باربار آتا ہے جو اونٹنی حضرت صالحؑ کی اونٹنی تھی،اور جو ایک معجزے کے طور پر وجود میں آئی تھی۔ قومِ ثمود کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت صالحؑ کو بھیجا تھا، اور جو ایک اونچے درجے کے نبی تھے انہیں حکم ہوا کہ جاکر اس بے ہودہ قوم کو راہ راست پر لائیں۔ وہ بڑی بگڑی قوم تھی۔ بیشتر میں خرابی یہ تھی کہ ان کے پاس دولت بہت زیادہ تھی، علاقہ بہت سرسبزتھا۔ اردن کے علاقہ سے لے کر عرب تک، اور مدینے شریف سے لے کر تبوک کے درمیانی علاقے میں۔لمبا چوڑا علاقہ تھا، اور ثمود کے لوگ اپنے تئیں تکبر کے مارے ہوئے اور اپنے آپ کو بہت برتر سمجھتے ہوئے اونچے پہاڑوں کو تراش کر چھینی ہتھوڑی سے انھیں چھیل چھیل کر ان پہاڑوں کے اندر نہایت خوبصورت محل بناتے تھے۔یہ ان کا بڑا کمال تھا،آج بھی ان کی باقیات اردن میں جاکر دیکھی جاسکتی ہیں۔ 
یہ لوگ معاشرے کے معتبر لوگ تھے اور وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ تب اللہ نے ایک پاکیزہ نبی حضرت صالح علیہ السلام کو ان کے پاس بھیجا کہ جاکر ان کو اللہ کا پیغام دیں۔تو ان لوگوں کو نبیوں کے اوپر جو اعتراض رہا تھا، جتنے بھی نبی ان کے پاس بھیجے گئے ہیں ایک ہی اعتراض رہا ہے کہ آپ کیسے نبی ہوسکتے ہو؟ آپ ہمارے جیسے انسان ہو۔ اور کہتے 
تھے کہ تو بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، اور پھر تیسری بات کہ تو غریب آدمی ہے،اور غریب آدمی کیسے نبی ہو سکتا ہے؟ نبی تو بہت امیر آدمی کو ہونا چاہیے۔ متکبر کو ہونا چاہیے۔ فرعون نے بھی یہی کہا تھا کہ تم کیسے نبی ہو سکتے ہو، تیرے بازوؤں میں سونے کے کنگن بھی نہیں اور بھی جتنے پیغمبر تھے ان کے ساتھ بھی یہی تھا۔ نوحؑ کے ساتھ بھی یہی تھا۔ وہ یہی بات بار بار دہراتے کہ اگر تو سر بلند ہوتا اور تیرے بھی اتنے اونچے محل ہوتے، جتنے لوگوں کے پاس ہیں، تم نے بھی ایسی عمارتیں بنائی ہوتیں،اے صالح تو ہم تم کو پیغمبر مان لیتے، اب تو  تو ایک عام آدمی ہے۔ اگر ہم طبیعت پر بوجھ ڈال کر آپ کو پیغمبر مان بھی لیں تو اس کے لیے ایک شرط ہے کہ ہمیں کوئی معجزہ دکھا دو، حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا آؤ کہ تم کون سا 
معجزہ چاہتے ہو؟ مگر معجزہ رونما ہونے کے بعد پھر اگر تم نے خدا اور اس کے پیغمبر کو نہ مانا تو پھر تم پر عذاب آجائے گا۔ثمود نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تیرا اللہ اس پہاڑ سے ایک اونٹنی پیدا کرے۔وہ اونٹنی آئے ہمارے ساتھ بستی میں رہے تو پھر ہم مانیں گے تم پیغمبر ہو۔چناں چہ انہوں نے دعا کی، اور اللہ سے اس معجزے کو طلب کیا کہ اگر یہ لوگ اس طرح ہی سے مان جائیں تو ان کا فائدہ ہے۔ان چٹیل چکنے پہاڑوں کے درمیان میں سے اللہ کے حکم سے اونٹنی نمودار ہوئی۔تب حضرت صالحؑ نے فرمایا کہ تمہاری خواہش کے مطابق یہ اونٹنی انہی پہاڑوں میں سے پیدا ہوکر آپ کے درمیان آگئی ہے۔ اب اللہ نے ایک شرط عائد کی ہے کہ بستی کے ایک کنویں سے یہ پانی پیئے گی اور اس کا ایک دن مقرر ہوگا۔اس دن وہا ں سے کوئی دوسراآدمی، کوئی مویشی اور کوئی چرند پرند پانی نہیں لے سکے گا۔کچھ دن تو ثمود نے وعدے کی پاسداری کی۔مگر کچھ عرصے کے بعد پہلے آٹھ لوگ جو بعد میں نو ہوگئے یہ طے کیا کہ ہم نے یہ شرط خود پر خواہ مخواہ میں عائد کرلی ہے۔اس اونٹنی کی کیا حیثیت ہے۔ہم اس کا کسی نہ کسی طرح قلع قمع کردیتے ہیں۔ پھر ایک رات انہوں نے اس اونٹنی خونچیں کاٹ دیں، جو کہ ٹخنوں کے اوپر کاحصہ ہوتا ہے، تو اونٹنی ظاہر ہے وہاں پر اپاہج ہو کر بیٹھ گئی۔یہ حضرت صالحؑ کے علم میں آیا تو انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ یہ بہت برا ہوا، تم نے نہ صرف معجزے کو جھٹلایا بلکہ اس مہمان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، اب تین دن میں تمہارا قلع قمع ہوجائے گا اور تم نیست و نابود ہوجاؤ گے۔ پھر آنے والی تاریخ میں لوگ انگلیاں اُٹھا اُٹھا کر بتایا کریں گے کہ یہ ثمود کے رہنے کی جگہ تھی اور یہ ان کے محل تھے جو ویران پڑے ہیں اور قیامت تک اسی طرح ویران رہیں گے۔ چناں چہ جیسے فرمایا گیا تھا بالکل ایسے ہی ہوا پہلے دن، جیسا کہ بتاتے ہیں کہ ان کے منہ پیلے ہوئے اگلے دن بے حد سرخ ہوگئے اور پھر کالے۔پھر ایک ایسی چنگھاڑ، جیسے آج کل بم بنے ہیں۔چنگھاڑ آئی، وہ سارے کے سارے اوندھے منہ گر گئے اور نیست و نابودہوگئے۔ 
اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اشفاق احمد صاحب لکھتے ہیں کہ اسلام آباد ایک تقریب میں جانا ہوا تو پیغام ملا کہ ایک بابا جی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں ان سے ملنے چلا گیا۔ انہوں نے کہا کہ تم بڑی مٹھار مٹھار کی باتیں بناتے ہیں لیکن میں تم کو تنبیہ کرتا ہوں کہ تم لوگ بہت بے خیال ہوگئے ہو۔ تم ایک بہت خوفناک منزل کی طرف رجوع کررہے ہو۔یہ پاکستان ملک ایک معجزہ ہے۔ یہ جغرافیائی حقیقت نہیں ہے۔تم بار بار کہا کرتے ہو ہم نے یہ کیا اور یہ کیا۔پاکستان کا وجود میں آنا اتنا ہی بڑا معجزہ تھا جتنا بڑا قوم ثمود کے لیے اونٹنی کا پیدا ہونا تھا۔اگر تم اس پاکستان کو حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی سمجھنا چھوڑ دو گے، تو تم رہو گے نہ تمھاری یادیں۔ 
پاکستان کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی قیادت ناکام ترین نسل کے ہاتھ میں ہے۔

مصنف کے بارے میں