لانگ مارچ میں خون ریزی

لانگ مارچ میں خون ریزی

کپتان لانگ مارچ کے ساتویں روز وزیر آباد کے اللہ والا چوک میں اللہ کے ایک بندے کی فائرنگ سے زخمی ہوگئے۔ قاتلانہ حملہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت، اللہ کا شکر ہے کپتان کی جان بچ گئی۔ رب کریم ان کا سایہ ”عوام کے بے کراں سمندر“ کے سروں پر قائم رکھے، آمین۔ لانگ مارچ میں خوں ریزی ملک کے لیے نیک شگون نہیں مگر حیرت ہے کپتان نے تو آٹھ دنوں میں اسلام آباد پہنچ کر دوبارہ اقتدار کے خواب کی تعبیر ڈھونڈنا تھی۔ جانے کیا ہوا گزشتہ پورا ہفتہ وہ لاہور اور گوجرانوالہ کے درمیان ہی اپنا فن خطابت آزماتے رہے اور چھ سات ہزار کے ”سمندر“ میں تلاطم پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ سے خدا خدا کر کے نکلے تو چاقو چھریوں والے شہر وزیر آباد میں قاتلانہ حملہ ہوگیا۔ عزم نوید بشیر نے کنٹینر سے پندرہ بیس قدم کے فاصلے سے ان پر پستول سے فائر کیا۔ اِدھر سے 9 گولیاں چلیں کنٹینر سے کسی گارڈ نے دو گولیاں چلائیں۔ دونوں اناڑی غیر تربیت یافتہ دونوں کا نشانہ ٹھیک نہ تھا کپتان کو بقول ان کے 4 گولیاں ٹانگوں میں لگیں ایک چھو کر گزر گئی۔ دوسری نے ہڈی کو متاثر کیا۔ باقی دو کا پتا نہیں شوکت خانم ہسپتال کے انچارج ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق گولیوں کے ذرات ٹانگ پر لگے ہڈی متاثر نہیں ہوئی۔ حملہ کے فوراً بعد کپتان ہاتھ ہلاتے اپنے پیروں پر چل کر گاڑی میں بیٹھے اور لاہور روانہ ہوگئے۔ دیکھنے والوں نے سکھ کا سانس لیا کہ کچھ نہیں ہوا خدانخواستہ کچھ خطرناک ہوتا تو ہیلی کاپٹر میں جاتے، خطرناک کے ساتھ کیا خطرناک ہوگا۔ مگر دوسرے روز چند گھنٹوں کے چپ کے روزے کے بعد جب کپتان ہسپتال سے اپنی قوم سے خطاب کرنے آئے تو ایک ٹانگ پر پٹی دوسری پر پلاسٹر چڑھا ہوا تھا کہتے ہیں کہ حملہ کے بعد بے ہوش ہوگئے تھے۔ قرین قیاس نہیں گاڑی میں لیٹتے ہی سو گئے ہوں گے۔ ”یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا“ جاگتے ہی تین نام لے دیے انہیں بر طرف کرو ورنہ ملک گیر احتجاج ہوگا۔ الیکشن اور چیف کی تعیناتی کے پرانے مطالبات بھول گئے۔ اسد عمر نے ان ناموں کی اطلاع میڈیا کو دی۔ شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور فوج کے ایک اعلیٰ افسر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ۔ فرمان عالی شان کے ساتھ ہی ملک کے بڑے شہروں میں جلاؤ گھیراؤ کے واقعات رونما ہونے لگے لاہور میں گورنر ہاؤس  پر ہلا بولا گیا۔ گیٹ، کیمرے، فانوس توڑ دیے گئے۔ ٹائر جلائے گئے فیصل آباد میں رانا ثناء اللہ کے دفتر پر حملہ کیا گیا۔ کتنے آدمی تھے؟ حیرت انگیز طور پر ایک درجن کراچی میں شاہراہ فیصل پر سو دو سو افراد، باقی کہاں گئے؟ گھروں میں آرام کر رہے تھے۔ خوف و ہراس پھیلانا مقصد تھا پھیل گیا اسلام آباد میں فیض آباد پر مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔ پولیس نے آنسو گیس کے شیل پھینک کر بھگا دیا۔ فواد چوہدری کی ”باغی پولیس“ کہاں گئی۔ سیانا بیانا بندہ کتنا جھوٹ بولتا ہے۔ پشاور کور کمانڈر کے دفتر کے سامنے مظاہرہ، دھرنا دیا گیا۔ صوبائی وزیر انور زیب خان نے کلاشنکوف لہرا کر کہا ”رانا ثناء اللہ سن لو اسلحہ لے کر آرہا ہوں تم سے بدلہ لوں گا۔“ انور زیب کو ایسی دھمکی زیب نہیں دیتی تھی مگر اعظم سواتی کی طرح خان کے سارے لیڈر ایسی ہی بڑھکیں مار کر اندر جاتے ہیں اور باہر آکر برہنہ کر کے تشدد کیے جانے کی شکایت کرتے ہیں۔ بڑے خان کا گزارہ بھی ایسی ہی دھمکیوں پر ہے۔ آئیے لانگ مارچ کاتجزیہ کرلیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق لانگ مارچ پر روزانہ 65 لاکھ روپے کے اخراجات ہوئے۔ چھ سات روز میں 3 کروڑ خرچ ہوئے۔ اسلام آباد تک اربوں خرچ ہوتے چار جانیں گئیں۔ فیصل واوڈا نے صحیح کہا تھا کہ لانگ مارچ میں مجھے خون ہی خون، موت ہی موت، جنازے ہی جنازے نظر آرہے ہیں۔ اہم شخصیات کو نشانہ بنایا جائے گا۔ لاہور سے پی ٹی آئی کے لیڈر اعجاز چوہدری اور ایک کارکن فیصل اقبال نے تو وزیر آباد میں حملہ کی پیشگوئی بھی کردی تھی۔ لاکھوں کروڑوں کا کنٹینر تیار کرالیا۔ بلٹ فروف شیشے بھی لگوا لیے کئی سوال پیدا ہوگئے۔ ریلی میں چیکنگ کا کیا انتظام تھا۔ ڈی پی او نے کہا ممکن نہیں تھا تو لانگ مارچ کیوں شروع کیا۔ 
وفاقی حکومت نے تو پہلے سے وارننگ دے دی تھی کہ دہشتگردی ہوسکتی ہے تھریٹس کو سیریس کیوں نہ لیا گیا۔ اسلحہ بردار ملزم کنٹینر کے اتنے قریب کیسے آگیا۔ اعجاز چوہدری اور فیصل اقبال جیسے ولی اللہ پارٹی میں موجود ہیں تو لانگ مارچ میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بجائے ان ولیوں کو اسلام آباد بھیج کر بازی اپنے حق میں پلٹنے کی کوشش کیوں نہ کی گئی۔ اس طرح اسلام آباد کا جبل الطارق فتح کرنے میں بقول غالب ”ہوئے ہیں پاؤں ہی پہلے نبرد عشق میں زخمی“ خطرناک صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ محترم نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کپتان کے لیے سومنات کا مندر بن گیا ہے۔ سترہ حملے کیے جائیں گے۔ بار بار حملے حاصل حصول کچھ نہیں داروغہ شہر نے چاروں طرف کے دروازے بند کردیے۔ لانگ مارچ کا تجربہ دوسری بار بھی ناکام لاہور سے چلتے ہوئے ہی جھٹکے لگ رہے تھے گوجرانوالہ تک عوام کا سمندر چھ سات یا آٹھ ہزار سے آگے نہ بڑھ سکا۔ مایوسی تو ہوئی ہوگی۔ کیا منہ لے کر آگے جاتے۔ ایک محترم نے لانگ مارچ کو رتھ یاترا کا نام دے دیا۔ کے ایل ایڈوانی نے بھارتی گجرات سے دہلی تک رتھ یاترا نکالی تھی۔ اس دوران 5 ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ لانگ مارچ گجرات نہیں پہنچا۔ مگر وزیر آباد تک چار جانیں لے گیا۔ مقاصد خطرناک، سازشیں ہولناک، مگر سب بے نقاب لانگ مارچ تھا یا مذاق اردو میں ڈھیلا ڈھالا پنجابی میں ماٹھا، انگریزی میں فلاپ اس دوران مسلسل کوششیں کی گئیں کہ مذاکرات کا کوئی دروازہ کھل جائے۔ پرویز الٰہی نے اوپررابطہ بھی کیا بڑے صاحب کی خاموشی کو اپنی دانست میں رضا مندی جانا اور کپتان کو فوری پہنچنے کا کہا کپتان نے لانگ مارچ کو مرید کے میں روک کر لاہور کی طرف دوڑ لگا دی۔ پیٹرول پھونکا کچھ حاصل نہ ہوا۔ جواب ملا ”مسئلہ نازک بہت ہے اس طرح پیش آؤ مت، جو بجھا سکتے نہیں وہ آگ بھڑکاؤ مت“ اس قدر ہو رہے ہو کیوں مایوس، الیکشن کا انتظار کرلیں جن سے خستگی کی داد پانے کی توقع تھی وہ اپنے عہد کے پکے نکلے۔ نو لفٹ نو انٹری بیساکھیاں ہٹالیں جائیں اپنا کام کریں کپتان مایوس لوٹے اور نام لے لے کر کوسنے دینے لگے کیسی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ للکاریں، دھمکیاں، لانگ مارچ میں الزامات کی تکرار اور پھر منت سماجت، دو طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی تقریر کے دوران کہا ”فیصلہ کرنے والے بتائیں کہ انقلاب کو الیکشن کا راستہ دیں گے یا خونریزی کا“ لانگ مارچ میں خونریزی ہوگئی راستہ نہ ملا۔ افواہ پھیلائی گئی کہ لانگ مارچ کے شرکا اسلام آباد کے بجائے پنڈی کا گھیراؤ کریں گے یہ خواب بھی بکھر گیا۔ بہرحال حملہ کے بعد وزیر آباد ہی میں لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان، دوبارہ لانگ مارچ صحتیابی سے مشروط 25 مئی کو کہہ کر لوٹ گئے تھے کہ 6 دن بعد آؤں گا۔ فدائین 6 ماہ تک کرلاتے رہے کہ ”لوٹ آؤ میرے لیڈر کہ بہار آئی ہے“ 6 ماہ بعد لانگ مارچ کا اعلان کیا جو وزیر آباد آکر دم توڑ گیا۔ اس دوران کتنے واسطے دیے ”اللہ کا واسطہ ہے قرآن کی آواز سنو ہم بھیڑ بکریاں نہیں ہیں“ کبھی دھمکیاں کبھی واسطے کبھی تلخیاں کبھی رابطے، جہلم سے خیبر پختونخوا کے مسلح جتھوں کی شمولیت بھی خواب بن گئی۔ پنجاب کی آبادی 12 کروڑ ڈیڑھ دو کروڑ لانگ مارچ میں کتنے لوگ آسکے کوئی معمہ نہیں مسٹری نہیں۔ غیر معمولی حالات، غیر معمولی واقعات، قاتلانہ حملے کی 72 گھنٹوں میں بھی ایف آئی آر درج نہ ہوسکی۔ پرویز الٰہی بھی قائل نہ ہوسکے۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے ناموں پر بسم اللہ کر کے ایف آئی آر درج کرا دیتے لیکن فوج کے اعلیٰ افسر کے نام پر کوئی سمجھوتہ نہیں پرویز الٰہی نے اعوذ باللہ کہہ کر معذرت کرلی۔ آئی ایس پی آر کا سخت بیان کپتان کے الزامات کو بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ قرار دے کر مسترد کردیا کسی کو بھی ادارے اور اس کے سپاہیوں کی بے عزتی کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ حکومت بغیر کسی ثبوت کے ہتک آمیز بیانات کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے۔ کپتان کی گرفتاری کے راستے کا ایک اور بیریئر ہٹ گیا۔ عمران خان نے اس قسم کی حرکات و سکنات سے اپنے آپ کو اقتدار سے میلوں دور کرلیا ہے۔ لانگ مارچ کس طنطنے سے نکالا تھا مگر بات نہ بن سکی۔ ”بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرہئ خوں نہ نکلا“ چاروں اطراف سے گھیرا ڈالا جا رہا ہے جنہوں نے پال پوس کر بڑا کیا تھا لاڈ پیار اٹھائے تھے انہوں نے منہ سے فیڈر چھین لیا۔ وفاقی حکومت گرفتاری کا فیصلہ کرچکی عدلیہ کے مائی باپ نے توہین عدالت کیس میں سخت ریمارکس دے کر خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ لاہور ہائیکورٹ میں بیٹی ٹیریان کے بارے میں کیس دائر کردیا گیا۔ الیکشن کمیشن سے نا اہل ہوئے کئی روز ہوگئے دوسری نا اہلی کی تلوار بھی گرانے والی ہے۔ پارٹی کی سربراہی سے بھی محرومی کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ارشد شریف، صدف نعیم، کچلے جانے والے کامران اور گولی سے مرنے والے معظم کے قتل کیس کی ایف آئی آر میں نام شامل کرلیا گیا تو کیا کریں گے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود الیکشن کی تاریخ نہیں لے سکے۔ آرمی چیف کی تقرری رکوا نہیں سکے۔ اسلام آباد میں داخلہ ممنوع قرار پا گیا۔ کپتان کو رعایت نہ دینے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ لانگ مارچ آخری کوشش تھی جو وزیر آباد آتے آتے ناکام ہوگئی جس کے بعد ہی لانگ مارچ لپیٹنے کا فیصلہ کیا گیا کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر آباد کے ایک شادی ہال میں ہلکے پھلکے قاتلانہ حملہ کی پلاننگ کی گئی اس کے لیے ایک نشئی کو پکڑا گیا۔ اس میں اسلامی ٹچ دیا گیا۔ اس نے 5 لاکھ کا آٹو میٹک پستول 20 ہزار میں کیسے خریدا گولی چلائی کیسے چلائی گولی کہیں نہیں لگی۔ ذرات لگے جس سے 16 زخم آگئے۔ چنانچہ لانگ مارچ تمت بالخیر۔ 2014ء کے دھرنے کی طرح کوئی فیس سیونگ چاہیے تھی قاتلانہ حملہ سے فیس سیونگ مل گئی۔ ”رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔“ حکومت کے سر سے دباؤ ختم ہوا بازی پلٹ گئی ہے۔ عدالتیں محتاط، نئی اسٹیبلشمنٹ وجود میں آچکی، حکومت بے نیاز منہ لگانے کو تیار نہیں، کپتان سے سومنات کا مندر فتح نہیں ہوسکا چار سال تک شیر شاہ سوری نہ بن سکے۔ اب محمود غزنوی بننے کا خواب بھی ادھورا رہ گیا اللہ کرے نومبر کے وسط تک امن و امان قائم رہے۔ سعودی ولی عہد 10 نومبر کے بعد دورے پر آنے والے ہیں۔ حالات پر امن رہے تو ان کے دوسرے سے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔

مصنف کے بارے میں