جزائر سے متعلق صدارتی آرڈیننس سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج

جزائر سے متعلق صدارتی آرڈیننس سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج

کراچی: سندھ ہائیکورٹ میں دو جزائر کے بارے میں صدارتی آرڈیننس کو چیلنج کر دیا گیا ہے۔ عدالت عالیہ نے درخواست کو سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے وفاق اور صوبائی حکومت کو 23 اکتوبر کے نوٹسز جاری کر کے ان سے جواب طلب کر لیا ہے۔

سندھ ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ جزائر سے متعلق صدارتی آرڈیننس غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ ترمیم کیلئے اسمبلی کے ذریعے دو تہائی اکثریت ہونا ضروری ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد اختیارات صوبائی حکومت کے پاس ہیں،  استدعا ہے کہ عدالت اس صدارتی آرڈیننس کو کالعدم قرار دے۔

خیال رہے کہ جزائر سے متعلق جاری صدارتی آرڈیننس 2 ستمبر 2020ء کو جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بلوچستان اور سندھ کے جزائر کی مالک وفاقی حکومت ہوگی۔ صدارتی آرڈیننس کے مطابق بنڈال اور بڈو سمیت تمام جزائر کی مالک وفاقی حکومت ہوگی جبکہ ٹیریٹوریل واٹرز اینڈ میری ٹائم زونز ایکٹ 1976ء کے زیرانتظام ساحلی علاقے بھی وفاق کی ملکیت ہونگے۔

صدارتی آرڈیننس میں کہا گیا تھا کہ حکومت نوٹیفکیشن کے ذریعے پاکستان آئی لینڈز ڈیویلپمنٹ اتھارٹی قائم کرے گی۔ اتھارٹی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کا قبضہ حاصل کرنے کی مجاز ہوگی۔ اتھارٹی کا ہیڈ کوارٹرز کراچی میں ہوگا، علاقائی دفاتر دیگر مقامات پر قائم ہو سکیں گے۔ اتھارٹی غیر منقولہ جائیداد پر تمام لیویز، ٹیکس، ڈیوٹیاں، فیس اور ٹرانسفر چارجز لینے کی مجاز ہو گی۔ وزیراعظم اتھارٹی کا پیٹرن ہوگا جو کارکردگی کے جائزے سمیت پالیسی ہدایات جاری کرے گا. حکومت چیئرمین سمیت 5 سے 11 ارکان پر مشتمل 5 سال کیلئے پالیسی بورڈ تشکیل دے گی۔

آرڈیننس میں مزید کہا گیا کہ حکومت گریڈ 22 یا مساوی حاضر یا ریٹائرڈ افسر کو اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کرے گی۔ آرمی کے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے کے مساوی حاضر یا ریٹائرڈ افسر بھی چیئرمین تعینات ہو سکیں گے۔ چیئرمین کے عہدے کی مدت چار سال ہوگی جس میں ایک بار توسیع ہو سکے گی۔ پیٹرن، اتھارٹی، چیئرمین، ممبر یا کسی بھی عہدیدار یا ملازم کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہو سکے گی۔

اسی طرح آرڈیننس کے متن میں کہا گیا کہ اتھارٹی ایک یا زیادہ رجسٹرار مقرر کر سکے گی. رجسٹرار کو سول کورٹ کا اختیارہو گا جو کسی فرد یا دستاویزات کی طلبی کا مجاز ہوگا. اتھارٹی کے زیرانتظام ایک فنڈ بھی قائم کیا جا سکے گا۔ اتھارٹی کو دس سال کیلئے آمدنی، منافع اور وصولیوں پر ٹیکسوں کی چھوٹ ہو گی۔ آرڈیننس کی خلاف ورزی پر 6 ماہ سے 7 سال تک قید اور جرمانہ کی سزائیں بھی دی جا سکیں گی۔

ادھر جزائر کی ملکیت سے متعلق تنازع پر سندھ کی طرف سے وفاقی حکومت کو جزائر پر کام کی مشروط اجازت کا حکمنامہ واپس لے لیا گیا ہے۔ اس حوالے سے تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ سندھ کے جزائر اور ساحلوں سے متعلق وفاقی حکومت کے اقدامات پر صوبائی حکومت نے وفاق کو احتجاجی مراسلہ ارسال کر دیا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ سندھ میں موجود جزائر اور سمندری ساحل صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہے۔ وفاق کی جانب سے پاکستان آئی لینڈ اتھارٹی کے قیام اور آرڈیننس کا اجرا غیر قانونی اور طے شدہ شرائط کی خلاف ورزی ہے۔ آرڈیننس کا اجرا کرکے سندھ کے جزائر کی ملکیت تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ طے شدہ امور کی خلاف ورزی کرکے وفاقی حکومت غیر آئینی غیر قانونی اقدامات کر رہی ہے۔ وفاق نے آئین سےانحراف کرکے آرڈیننس کا اجرا کیا۔ وفاقی حکومت اب سندھ کے جزائر میں نئے شہر بسانے کے منصوبوں پر کام نہیں کر سکے گی۔

سندھ حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ترقیاتی کاموں اور بہتری کے لئے وفاقی حکومت کو آئی لینڈ کی ترقی کی مشروط اجازت دی تھی، تاہم اب پہلے سے کی گئی خط وکتابت اور توثیق پر عمل نہیں کریں گے اور وفاقی حکومت سے جزائر پر کام کی مشروط اجازت کا حکمنامہ واپس لے رہے ہیں۔