سوات اور گردونواح میں زلزلے کے جھٹکے

سوات اور گردونواح میں زلزلے کے جھٹکے

مینگورہ: خیبر پختونخوا کے ضلع سوات اور اس کے گردونواح میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔

زلزلہ پیما مرکز کے مطابق سوات اور اس کے گردونواح میں محسوس کی گئے زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 4.7 ریکارڈ کی گئی جبکہ زلزلے کا مرکز کوہ ہندوکش کا پہاڑی سلسلہ تھا اور زلزلے کی گہرائی 100 کلو میٹر تھی۔

زلزلے کے باعث لوگ خوفزدو ہو کر گھروں، دکانوں اور دفاتر سے باہر نکل آئے اور کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگے۔گزشتہ تین ماہ کے دوران زلزلے کے دو جھٹکے محسوس کیے جا چکے ہیں تاہم ریکٹر اسکیل پر زلزلوں کی شدت 4 اور 5 کے درمیان تھی۔ چار ماہ قبل جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے جن کی شدت ریکٹر اسکیل پر 5.1 تھی۔

واضح رہے کہ 

و ہزار پانچ کے زلزلے میں خصوصاً آزاد جموں وکشمیر میں ہزاروں جانوں کے ضیاع کے علاوہ بنیادی ڈھانچے کو بھاری نقصان پہنچا تھا۔ المناک زلزلے کے پندرہ سال مکمل ہونے پر آج قومی بحالی ڈے منایا جا رہا ہے۔

اس دن کے حوالے سے ملکی اور غیر ملکی سماجی تنظیموں کی جانب سے مختلف ورکشاپس، واک اور دیگر تقریبات کا اہتمام کیا جائے گا، جس میں مقررین قدرتی آفات سے بچاﺅ کے طریقوں کے متعلق آگاہی فراہم کریں گے جبکہ زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کی تباہ کاریوں سے متعلق تصویری نمائش بھی لگائی جائے گی اور زلزلہ میں جاں بحق افراد کی مغفرت کیلئے دعائیہ تقریبات کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ آٹھ اکتوبر 2005ء کو جنوبی ایشیاء کے ممالک بھارت اور افغانستان سمیت پاکستان کے علاقہ آزاد کشمیر میں خوفناک زلزلہ آیا تھا جس سے ہزاروں افراد جاں بحق جبکہ لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے تھے۔ یہ زلزلہ پاکستان کی تاریخ میں اب تک کی قدرتی آفات میں سب سے بڑی آفت تھی۔ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں زلزلے میں سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کو ہوا تھا۔

آزاد کشمیر میں سات اعشاریہ چھ شدت کے زلزلے سے ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور وسیع علاقے میں املاک کو نقصان پہنچا اور اب تک ان علاقوں میں زلزلے کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے 2002ء میں بھی کشمیر کے علاقے میں زلزلے آئے تھے۔ 2002ء میں ہی نومبر کے مہینے میں گلگت کا علاقہ تین مرتبہ زلزلوں کا نشانہ بنا تھا۔

بیس نومبر 2002ء کو گلگت میں آنے والے زلزلے سے 23 افراد ہلاک ہوئے تھے اورگلگت اور استور میں لینڈ سلائیڈنگ سے پندرہ ہزار لوگ بے گھر ہوگئے تھے۔ اس سے پہلے یکم اور تین نومبر کو بھی گلگت اور استور میں آنے والا زلزلے پشاور، اسلام آباد اور سری نگر تک محسوس کیے گئے۔ ان زلزلوں سے شاہراہ قراقرم بند ہوگئی تھی جبکہ کل اٹھارہ افراد ہلاک اور پینسٹھ زخمی ہوگئے تھے۔

چھبیس جنوری 2001ء کو بھارتی صوبہ گجرات میں آنے والے زلزلے سے جنوبی پاکستان میں رن آف کچھ کا علاقہ متاثر ہوا جس سے بیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ستائیس فروری 1997ء میں بلوچستان میں ہرنائی کے مقام پر ایک بڑی شدت کا زلزلہ آیا جس سے کوئٹہ، ہرنائی اور سبی میں لینڈ سلائیڈنگ سے پچاس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ زلزلہ وسطی بلوچستان میں بھی محسوس کیا گیا تھا۔

اکتیس جنوری 1991ء کو کوہ ہندوکش میں آنے والے زلزلے سے پاکستان کے شمالی علاقوں خصوصا چترال میں تین سو سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ تیس دسمبر 1983ء  کو کوہ ہندوکش میں ایک بڑے زلزلہ سے شمالی پاکستان میں چودہ افراد ہلاک ہوئے۔ 1974 میں دسمبر کے ہی مہینے میں مالاکنڈ کے شمال مشرق میں آنے والے زلزلہ پانچ ہزار سے زیادہ افراد کی جان جانے کا سبب بنا تھا۔

آزاد جموں کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے اس دن کی مناسبت سے اپنے بیان میں کہا ہے کہ آٹھ اکتوبر 2005 کا زلزلہ قدرت کی طرف سے ایک وارننگ تھی کہ ہم مستقبل میں ایسے حادثات سے نمٹنے کے پیش بندی کریں تاکہ ہم ان تکالیف اور دکھوں سے بچ سکیں جو اس ناگہانی آفت کے نتیجے میں ہمارے ہزاروں خاندانوں کے لاکھوں افراد کو جھیلنے پڑے۔ قدرتی ناگہانی حادثات میں انسانی جانوں اور مادی نقصانات کو کم کرنے کے لیے عوامی آگاہی اور جدید ٹیکنالوجی سے مدد حاصل کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

سردار مسعود خان کا کہنا تھا کہ اس ناگہانی قدرتی آفت کے نتیجہ میں ہم سے جدا ہونے والے ہزاروں شہریوں کی یادیں آج بھی ہمارے دل و دماغ میں تازہ ہیں۔ آزاد کشمیر کی حکومت نے وفاقی حکومت کے تعاون سے زلزلہ سے تباہ ہونے والے انفراسٹرکچر کی ازسرنو تعمیر کے لیے محنت اور لگن سے کام کیا اور مالی وسائل کی کمی کے باوجود زلزلہ سے متاثرہ سات اضلاع میں بہتر فیصد منصوبے مکمل کر لیے جبکہ بارہ فیصد منصوبوں پر کام جاری ہے جو جلد مکمل کر لیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ قدرتی آفت سے نمٹنے والے محکموں اور ماہرین کی مشاورت سے نئی تعمیرات کو اس انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا ہے کہ وہ مستقبل میں زلزلہ یا کسی اور حادثے سے زیادہ متاثر ہوں اور نہ ہی انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بنیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم عوام الناس کے اندر ایک جانب تو قدرتی آفات کے بارے میں شعور و آگاہی پیدا کر کے انہیں تیار کریں اور دوسری طرف جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لا کر خطرات کے خلاف پیشگی اقدامات کریں تاکہ انسانی جانوں اور املاک کے نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے۔