سرخیاں ان کی……؟

Dr Fareed Ahmad, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

٭…… ساتویں آئی جی اور پانچویں چیف سیکرٹری بھی تبدیل……؟
٭…… معزز قارئین! بصد ادب سے، کسی گاؤں میں ایک احمق عورت رہتی تھی۔ خوش نصیبی سے اس نے ایک بار نئی چوڑیاں پہنیں۔ اب اس سے جس کی ملاقات ہوتی اس سے ہاتھ ہلا ہلا کر بات کرتی تاکہ اس کی چوڑیوں کی تعریف کی جائے، مگر چوڑیوں کی تعریف کرنا تو دور، جب اس کی چوڑیوں کی طرف کسی نے دیکھا بھی نہیں تو اس نے گھر آ کر اپنے چھپر میں آگ لگا دی، جب آگ پھیلی تو محلے کے لوگ آگ بجھانے دوڑے۔ آخر کسی نے پوچھ لیا کہ آگ لگی کیسے؟ تو اس نے اپنے چوڑیوں بھرے ہاتھ چھنکا چھنکا کر کہنا شروع کر دیا کہ: ”آگ ادھر لگی، یوں لگی، ایسے لگی“۔ اچانک ایک خوبرو عورت نے اس کی نئی چوڑیوں کو دیکھتے ہوئے کہا ”بہن یہ بتاؤ کہ یہ چوڑیاں کس دکان سے خریدی ہیں۔ بہت اچھی ہیں“۔ 
جواب میں اس احمق عورت نے منہ بسور کر کہا:
”گھر جل گیا تو چوڑیاں پوچھیں“۔
بہرحال، جاہلانہ رسم حکمرانی صرف دور قدیم میں ہی نہیں بلکہ عہد حاضر میں بھی بھرپور انداز سے رائج ہیں۔ لہٰذا آج بھی حکمران خود کو بادشاہ متصور کرتے ہوئے اسی خوبصورت دھوکے کا شکار ہیں کہ کائنات کی ہر شے ان کی رعایا ہے۔
یہی وقت کی گردش کا وہ باریک نقطہ ہے جسے سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اکثر اوقات پروانوں کے ساتھ شمعیں بھی جل جایا کرتی ہیں۔ لکھتے لکھتے لاشعور سے نہ جانے کیوں یاد آ گیا۔ میرے گھر کے قریب ان دنوں کے وزیراعلیٰ جناب پرویز خٹک کے سسرال کے گھر پے بوقت ملاقات اپنے کپتان جناب عمران خان کو میں نے نہ صرف پیشگی وزیراعظم پاکستان بننے کی خبر اور مبارکباد دی تھی بلکہ کچھ جوہری فیصلوں پے مبنی ایسی پرعزم، باصلاحیت اور فولادی ٹیم کی بھی اپیل کی تھی کہ جو برباد قوم کو دربدری سے بچا سکے اور ان کی خالی جھولیاں بھر سکے۔ اگرچہ اس ملاقات میں ہونے والی دیگر گفتگو پے مبنی میرا کالم ریکارڈ پر موجود ہے مگر اب تو یوں لگتا ہے کہ جیسے میں کسی حیرت کدہ میں محو سفر ہوں۔ کیونکہ کل بھی اور آج بھی چند افراد ملکی آمدن کے تقریباً نصف پر قابض تھے اور ہیں اور پاکستانی اشرافیہ کی دنیا کے کسی ملک میں نظیر نہیں ملتی۔ جبکہ دوسری طرف وفاقی سطح پر بھی محض تبدیلیاں اور صرف تبدیلیاں ہی دکھائی دیتی ہیں۔ اب تو صدیوں پرانی بات لگتی ہے کہ جب ہم 
بچے تھے ہمارے کانوں میں آج بھی ایک آواز گونجتی ہے۔ ”بال کلیم اللہ، کلیم سے سمیع اللہ پھر کلیم اللہ یہی آواز سنتے سنتے آخرکار گول کر دیا جاتا تھا۔ مگر آج کا قومی بال تو کبھی وزیر اطلاعات فواد چودھری اور پھر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری، وزیر خزانہ جناب حماد اظہر، پھر وزیر خزانہ حماد اظہر جو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ینگ بلڈ تھا اس کی بابائے سیاسیات جناب شوکت ترین کو وزارت خزانہ سونپ دی گئی اور جناب حماد اظہر کو وزیر توانائی مقرر کر دیا گیا جبکہ جناب عمر ایوب کو فارغ کر کے انہیں وفاقی وزیر اقتصادی امور بنا دیا گیا جبکہ میرے دوست عظیم شاعر احمد فراز کے فرزند جناب شبلی فراز کو بھی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی ذمہ داری سونپ دی گئی یوں دیگر وزارتوں پے بھی نت نئے تجربے کیے گئے۔ وزارت اطلاعات کو بھی تجربہ گاہ بنایا گیا۔ میرے کپتان جی، یہ سب کیا ہے۔ کیونکہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی کے مصداق معزز ارکان کے پورٹ فولیو کی اس طرح سے بے وقعتی کو دانشمندی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ یہ ملک کا معاملہ ہے۔ کرکٹ ٹیم کا معاملہ نہیں ہے جبکہ کرکٹ ٹیم میں بار بار تبدیلیاں ممکن ہیں۔ تاکہ کچھ نتائج برآمد ہو سکیں مگر یقین جانئے گا معزز ارکان یا باصلاحیت افسران خواہ وہ سی ایس پی ہوں یا سی ایس ایس یا سیاستدان ہوں ان کی اس طرح سے طوفانی تبدیلیاں مثبت نتائج نہیں دے سکتیں۔ آپ خود سوچیں، تقریباً 37 ماہ میں ایف بی آر کے سات سے 8 عدد چیئرمین، جن میں سے دو کو میں قریب سے جانتا ہوں کہ وہ معاشی حالت بدلنے کی اہلیت رکھتے تھے مگر بے چارے حالات کی نذر ہو گئے۔ اسی طرح بورڈ آف انوسٹمنٹ، سیکرٹری کامرس بھی پانچ پانچ بار محض کھوٹے سکوں کی بدولت کھڈے لائن لگا دیئے گئے۔ یہ سب کے سب خراب نہیں تھے۔ نہ ہی نااہل تھے۔ صرف ان کی لابی سٹرانگ نہ تھی۔ یہی ان کا قصور تھا۔ ایسے ہی اپنے خوبصورت صوبے پنجاب کی مثال لے لیں۔ پوری قومی سیاسی تاریخ میں میرے ناقص علم کے مطابق شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ پنجاب حکومت نے اپنے اقتدار کے ابتدائی تین سال کے دوران سات آئی جی پنجاب اور 5 چیف سیکرٹری پنجاب یکدم تبدیل کر دیئے ہوں۔ حالانکہ یہ سب کے سب جرأت مند، باصلاحیت تھے جو ڈلیور کر سکتے تھے اگر انہیں ٹارگٹ فوکس کرنے کا موقع دیا جاتا۔ لہٰذا سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ان تمام افسران بالا میں کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جو انقلابی وزیراعلیٰ پنجاب سائیں بزدار کے معیار پر پورا اترتا یا پورا اترنے کی صلاحیت رکھتا۔ خدا کے لیے کچھ تو خیال کریں۔ اس طرح بار بار کی تبدیلیوں سے ادارے تباہ و برباد ہو جائیں گے اور حکومت کی بدنامی الگ ہو گی۔ لہٰذا ہاتھ جوڑ کر یہی اپیل ہے کہ جس طرح پنجاب کے سب سے بڑے ہسپتال پی آئی سی میں دل کے مریضوں کو Expired Stant ڈال کر انہیں حالات کے حوالے کر دیا گیا۔ یعنی ان کی صحت کے ساتھ کھیلا گیا مگر مافیا تاحال سرگرم ہے۔ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان سے یہی استدعا ہے کہ وہ بذات خود نوٹس لیں اور سنی سنائی باتوں کے بجائے یہ سوچیں کہ ہمارے ادارے پہلے ہی بہت پُرخطر حالات اور خوف میں اپنا اپنا کام سرانجام دے رہے ہیں جبکہ وہ ”روبوٹس“ نہیں ہیں۔ اتنے دباؤ، تبدیلیوں کی لٹکتی تلواروں اور سیاسی دھمکیوں کے ساتھ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنی اہلیت، قابلیت اور انتظامی صلاحیتوں کے مطابق ملک و قوم کی خلوص نیت سے خدمت سرانجام دے سکیں۔ لہٰذا حکومت وقت کو بہت کچھ سمجھنے اور جاننے کی ضرورت ہے۔ ورنہ۔؟