عمران خان اور ریڈکراس

عمران خان اور ریڈکراس

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔لیکن کہتے ہیں کہ بعض اوقات حقائق چاہے سو پردوں میں بھی چھپالیے جائیں، زیادہ عرصہ تک آنکھوں سے اوجھل نہیں رہ سکتے، بالآخر طشت ازبام ہوکر ہی رہتے ہیں۔ بات تودرحقیقت قوتِ ضبط اور اپنے اپنے ظرف کی ہے۔ تاہم جب نہ ہی ضبط ہو اور نہ ہی ظرف تو وہی کچھ ہوتا ہے جو آجکل پی ٹی آئی اور عمران خان کی شکل میں موجود اسکی قیادت کے ساتھ ہورہا ہے۔ یعنی جب آپ کی تمام تر کوشش کے باوجود بھی کچھ ہاتھ نہ لگے بلکہ حالات ریت کی طرح آپ کے ہاتھوں سے سرکنے لگیں تو سمجھ جائیں 
کج انج وی راہواں اوکھیاں سن
کچھ گل وچ غماں دا طوق وی سی
کج شہر دے لوگ وی ظالم سن
کج اسانوں مرن دا شوق وی سی
حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی پے درپے ’موشگافیوں‘نے جہاں انکی پارٹی کے لئے ان گنت مشکلات پیدا کردی ہیں تووہیں ان کی اپنی ذات بھی ایک ایسے بھنور میں پھنس گئی جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ ڈوبتے ہی چلے جارہے ہیں۔بظاہر انہیں لگ رہا ہے کہ عوام کا جم غفیر انکے ساتھ ہے اور وہ جتنادباؤ بڑھائیں گے، ریاستی ادارے انکا ساتھ دینے کے لئے اْتنا ہی مجبور ہوتے چلے جائیں گے اور پی ڈی ایم کی حکومت کو چلتا کرکے انہیں اقتدار میں لانے کی راہ ہموارکردیں گے۔ لیکن شاید انہیں اس امر کا ذرہ بھر بھی احساس  نہیں کہ وہ ایک ایسی دلدل میں غیر محسوس انداز میں دھنستے چلے جارہے جو انکے ہلنے جلنے پر انہیں او ر بھی تیزی سے اندر دھکیل رہی ہے۔ ایسے میں ان کے اردگرد فواد چوہدری سمیت دوست نما ایسے مشیروں کی تعداد بھی کم نہیں جو انہیں اس دلدل میں دھکیلنے میں اپنا کردار بظاہر غیر محسوس طریقے سے،تاہم بھرپور ادا کررہے ہیں۔ عمران خان نے چند روز قبل عوام کے ساتھ اپنے ایک خطاب میں افواج پاکستان کی سینئر قیادت کے بارے میں جس نامناسب انداز میں اظہار خیال کیا اور ترجمان پاک فوج کی جانب سے جس انداز میں اس پر سخت ردعمل دیا گیا وہ اس امر کا متقاضی تھا کہ عمران خان اس پر یا تو معذرت کرتے اوریا پھر کم از کم اپنے الفاظ ہی واپس لیتے،  تاہم ان میں سے ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ عمران خان نے اگلے ہی روز سارا ملبہ پی ڈی ایم پر ڈالا اور فواد چوہدری نے الٹا آئی ایس پی آر کے ردعمل کو غیر ضروری قرار دے دیا۔ عمران خان کا اپنے ایک ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ میں اس پراپیگنڈے پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں جو مجرموں کا پی ڈی ایم گروہ میرے خلاف کرر ہا ہے۔اسکی وجہ وہ خوف ہے جس میں یہ پی ٹی آئی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باعث مبتلا ہے۔انکا یہ بھی کہنا تھا کہ میں ان سب کو باضابطہ جواب دونگاجو مجھے بدنام کرنے کے لئے میر ے الفاظ کو توڑ مروڑ رہے ہیں۔۔۔بس بہت ہوگیا۔
اس حوالے سے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ آئی ایس پی آر نے اوور ری ایکٹ کیا۔عمران خان نے جرنیلوں کا نام نہیں لیا، کیا موجودہ حکومت میں اہم تعیناتی کی اہلیت ہے؟
سوچنے والی بات ہے کہ عمران خان نے جب خود ایک عوامی جلسہ عام میں سب کے سامنے وہ الفاظ بولے جس پر فوج کی طرف سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیاتو بھلا اس سے پی ڈی ایم کا کیا تعلق ہے اور کون بھلا انکے الفاظ توڑ مروڑ کے پیش کر رہا ہے؟کیا انکا اشارہ میڈیا کی جانب ہے؟حقائق تو یہ ہیں کہ نہ ہی پی ڈی ایم اور نہ ہی میڈیا کے وہ الفاظ تھے جو جلسے میں انکی زبان سے ادا ہوئے۔ اگر عمران خان کو دیکھا جائے تو انکی شخصیت اس تماشا گر کی مانند ہے جو بیچ چوراہے میں روز ایک نیا تماشا لگاتا ہے۔لوگ اسکے اردگرداکٹھے ہوتے ہیں۔وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اْڑنے والا سانپ نکالے گا۔ تماشائی سارا دن اس اْمید پر کہ شاید وہ سانپ نکل آئے، منتظر رہتے ہیں۔تاہم سانپ نکلتا ہے اور نہ ہی تماشائیوں کا رش کم ہوتا ہے۔ کہاں گئی وہ کروڑوں نوکریاں اور لاکھوں گھر جن کا دعویٰ عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی کیا تھا۔ انکے یہ وعدے تو جلد ہی انڈے،مرغیوں اور بچھڑوں کی ’طلسم ہوشربا‘ میں تبدیل ہوگئے جسکی جگہ امریکہ کے خلاف نئے انقلابی نعروں نے لے لی۔ تاہم کیا کریں،  یوٹرن کے ماہر خان صاحب نے اپنے چاہنے والوں کو اس سے بھی زیادہ عرصہ تک لطف اندوز نہ ہونے دیا اور امریکہ سے تعلقات کی نئے پینگیں چڑھانا شروع کردیں۔چند روز قبل تو انقلابیوں کی اکثریت عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات تجدید نو کی جعلی خبروں پر بھنگڑے ڈال رہی تھی اور کہا جارہا کہ ایک اہم شخصیت سے بالآخر عمران خان کی ملاقات ہوگئی ہے اور اب اگلے دس سال بھی عمران خان کے اقتدار کے ہیں۔تاہم عمران خان نے قیام پاکستان کے وقت پاکستان کی آبادی 20کروڑ اور انبیاء علیہ السلام کی کل تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار ہے، جیسے متنازع بیانات داغنے کے فوراً بعد اپنے ایک نئے بیانیہ سے نہ صرف افواج پاکستان میں غم و غصے کہ لہر دوڑا دی، بلکہ انقلابیوں کی اْمیدوں پر بھی پانی پھیر دیا۔ ایسے میں عمران خان اگر اپنے مطالبہ میں کہ ملک میں فوری الیکشن کرا دیے جائیں، سچے ہیں تو وہ پاکستان کے دو بڑے صوبوں میں جہاں ان کی اور انکی اتحادی جماعت ق لیگ کی حکومت ہے،استعفے کیوں نہیں دیتے یا پھر ان صوبوں میں اسمبلیاں توڑنے کا عمل کیوں شروع نہیں کرتے۔ اگر انہیں ملک میں نئے الیکشن ہی کرانے ہیں تو وہ کیوں 9 حلقوں میں ضمنی انتخاب لڑ رہے ہیں۔ و ہ اگر بیشتر حلقوں میں کامیاب ہو بھی جائیں تو انہیں ایک سیٹ کے علاوہ باقی تمام سیٹیں پھر چھوڑنا پڑیں گی۔ یقینا وہاں پھر الیکشن ہونگے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں سیلاب سے جس طرح تباہی مچی، قیمتی جانوں اور املاک کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوا، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ خان صاحب اور وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی اس وقت جلسے کرنے میں مصروف تھے۔ ان جگہوں پر متاثرہ افراد کی امداد کے لئے شاید ہی کوئی حکومتی و انتظامی سیٹ اپ کام کرتے نظر آیا ہو۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کوکبھی مقتدر حلقوں کے چہیتے رہے جانے والے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کا انجام مد نظر رکھنا چاہیے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ ایک عمران خان کا ایجنڈا ہے اور ایک مقتدر حلقوں کا جو اس وقت ایک دوسرے کے مدِمقابل ہے۔ عمران خان کے حالیہ بیان نے ان پر ریڈ کراس لگوا دیے ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود حکومت کو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگرچہ کہ وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو سیلاب زدگان کی مدد کے لئے شب و روز محنت کرتے نظر آتے ہیں تاہم بجلی، پٹرول، گیس اور اشیاء خور و نوش کی قیمتوں میں آنے والے سونامی نے حکومت کی ساکھ کو عوام میں بُری طرح متاثر کیا ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی اور انکے اتحادیوں کے لئے آئندہ الیکشن جیتنا تو درکنار مناسب ووٹ لینا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ اس امر کا سارا فائدہ بالآخر پی ٹی آئی کو پہنچے گا جس کا عوام میں مقبولیت کا گراف پہلے سے بہتر ہوا ہے۔

مصنف کے بارے میں