انسان بن!

 انسان بن!

اسدطاہر جپہ کو میں نے اُن کی خوبصورت کتاب”دیہاتی بابو“ کے حوالے سے جانا، یہی اُن کی شناخت ہے جو ہمیشہ قائم رہے گی، کِسی کو یہ معلوم نہیں ہے مختار مسعود کون کون سے اہم عہدوں پر تعینات رہے؟ مگر یہ سب کو معلوم ہے وہ اُردو ادب کے ایک شاہکار”آواز دوست“ کے خالق ہیں، کِسی کو یہ نہیں معلوم مشتاق احمد یوسفی ایک اعلیٰ بینک آفیسر تھے، وہ کِس کِس بینک میں کِس کِس عہدے پر رہے کِسی کو نہیں معلوم، مگر یہ سب کو معلوم ہے وہ اعلیٰ پائے کے ایک مزاح نگار تھے اور آبِ  گم جیسی کئی خوبصورت کتابوں کے مصنف تھے، اِس طرح کی اور بہت سی مثالیں ہیں، شاعر، ادیب، اُستاد، دانشور اور مصور کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتے، نہ اُن کا مقام لوگوں کے دِلوں سے مِٹ پاتا ہے، وہ زندہ دِلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔البتہ مُردہ دِلوں میں کوئی زندہ کیسے رہ سکتا ہے؟۔ ہم ”مُردہ دِل“ہیں، سو ہم نے اپنے بڑے بڑے ”ہیروز“کو فراموش کردیا، یہ جومعاشرے میں آج اتنی بے برکتی ہے، اِس کی دیگر وجوہات بھی ہوں گی، ایک وجہ یہ بھی ہے ہم نے اپنے ”ہیروز“ کی قدر نہیں کی، اگلے روز میں ایک دوست کے گھر گیا وہ بڑے فخر سے بتارہا تھا کہ اُس کے پاس فیض احمد فیض کی تمام کتابیں موجودہیں، اور وہ اُن کا بہت بڑا ”فین“ہے، میں نے پوچھا آپ کو پتہ ہے فیض احمد فیض کہاں دفن ہیں؟۔ اُسے نہیں پتہ تھا، میں نے اُسے بتایا وہ لاہور میں ماڈل ٹاؤن میں دفن ہیں …… مجھے اِس موقع پر پنجابی کا اِک شعر یاد آگیا۔ 
نہ کوئی پُچھے نہ پہچانے پِھراں پیا دِل گیر
تے اُنج گھر گھرکنداں تے پئی لٹکے میری تصویر
اسدطاہر جپہ کی دوسری شناخت جواُن کے ”سِول سرونٹ“ کہنے کی جرأت اِس لیے کردی وہ ایک درویش افسر ہیں اِس کا بُرانہیں مانیں گے ورنہ کِسی ”سِول سرونٹ“ کو جب تک ”سول افسر نہ کہاجائے تب تک عمر بھروہ بُرا ہی مناتا رہتا ہے،……”سرونٹ“ بے چارے صرف ”عوام“ ہیں جو کسی نہ کسی صورت میں ہروقت اِن افسروں کے ہتھے چڑھے رہتے ہیں یا پاؤں پڑے رہتے ہیں، اسد جپہ سے میری گزارش ہے دیہاتی بابو جیسی خوبصورت کتاب لکھنے کے بعد اب ایک کتاب ”افسر بابو“ کے عنوان سے بھی لکھیں، خصوصاً اُن افسر بابوؤں کے بارے میں لکھیں جو دیہاتوں سے اُٹھ کر آئے اور ایسے ”شہری بابو“ بنے جِس عہدے پر بھی رہے دیہاتوں اور اُن میں بسنے والے لوگوں کی محرومیوں کو ختم کرنے کا تصورتک نہیں کیا، وہ صرف اپنی ”محرومیاں“ دُور کرنے میں لگے رہے، بڑے بڑے افسروں کی ”ذاتی محرومیاں“ اُن کی آئندہ دوتین نسلوں تک دُور ہوئیں مگر جِس مقام سے وہ اُٹھ کر آئے وہ مقام آج بھی بُری حالت میں ہیں، اِس ملک میں اللہ جانے کتنے ہی سیکرٹری سکولز، سیکرٹری ہائر ایجوکیشن، سیکرٹری صحت رہے ہوں گے جِن کا تعلق دیہاتوں سے ہوگا، اُن میں کتنے ہیں جنہوں نے کوئی سکول، کالج، کوئی یونیورسٹی، کوئی ڈسپنسری، کوئی ہسپتال اپنے گاؤں میں بنانے یا بنوانے کی کاوش کی ہو؟۔ ……میں یہ کالم اسد طاہر جپہ کی خوبصورت کتاب”دیہاتی بابو“ پر لکھنا چاہتا ہوں، یہ موقع شاید یہ باتوں کے کرنے کا نہیں، مگر میں یہ کہے بغیر رہ بھی نہیں پارہا کہ اِس ملک میں جتنے سیلاب اور اِس نوعیت کی جتنی آزمائشیں یا آفتیں آئیں جِن کے نتیجے میں بے پناہ جانی ومالی نقصانات ہوئے، اُس کا ذمہ دار ہم اکثر اپنے سیاسی حکمرانوں کو شاید اِس لیے ٹھہراتے ہیں وہ بے چارے ”سافٹ ٹارگٹ“ ہیں، اِس کے اصل ذمہ دار اِس کے اصل حکمران ہیں جو بیوروکریٹس ہیں، اِن ”فرشتوں“ نے اپنا کردار اگر صحیح ادا کیاہوتا، کچھ خوف خُدا کیا ہوتا، کچھ محنت کی ہوتی، کچھ رزق اپنا حلال کیا ہوتا، لاکھوں روپے کی جائز ناجائز تنخواہوں اور مراعات کا کچھ حق ادا کیا ہوتا آج ملک کی یہ حالت نہ ہوتی اب یہ زندوں میں ہے نہ مُردوں  میں۔…… جہاں تک ”دیہاتی بابو“ کا تعلق ہے یہ ایک ایسی خوبصورت کتاب ہے جِس میں مصنف نے دیہات کی خوبصورتیوں کو کچھ اِس انداز میں نمایاں کیا ہے ہم شہری بابو اِس احساس محرومی میں مبتلا ہوگئے ہیں ہم کسی دیہات میں پیدا کیوں نہیں ہوئے، یہ درست ہے ہمارے دیہات بے شمار بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، دیہاتوں میں اتنی صفائی نہیں ہوتی مگر جو ”سچائی“ وہاں ہوتی ہے وہ شہروں میں یا شہروں کی ”برائلرلائف“ میں ہمیں بہت کم مِلتی ہے، اسد جپہ نے اِسی سچائی کا دامن بڑی مضبوطی سے تھام کر اُس کا حق ادا کرنے کی کاوش کی ہے جِس پروہ ہمارے اُس خراج تحسین کے مستحق ہیں جو اُن کی کتاب کے شایان شان ہم شاید اُنہیں پیش نہ کرسکیں، …… ذاتی طورپر بھی میں خود کو اِس قابل نہیں سمجھتا ایک قابل انسان کی قابلیت کے ایک شہہ پارے پر کچھ لکھوں۔ مگر اِس کا کچھ نہ کچھ حق مجھے اداکرنا ہے، اور ”حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا“ ……ویسے بھی جِس کتاب کے بارے میں حسن نثار، رؤف کلاسرا، ڈاکٹر امجد ثاقب، مجیب الرحمن شامی، مظہر برلاس اور رحمان فارس جیسے قدآور دانشوروں نے لکھا ہو مجھ ایسا ”بونا“ اُس پر کیا لکھے؟۔ اِس کتاب کی ایک ”خصوصیت“ یہ بھی ہے مصنف ایک عنوان ”دیہاتی بابو“ کے اندر کئی عنوان چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی صورت کچھ اِس انداز میں لکھے کہ ہرکہانی کا اگر اپنا ایک رنگ روپ ہے تو ہرکہانی کے عنوان کا بھی اپنا ہی ایک مزہ ہے۔ تحریریں بھی بہت جاندار ہیں مگر اُن عنوانات میں جو جان ہے وہ کبھی نہ نکلنے والی ہے۔ کچھ عنوانات ملاحظہ فرمائیے۔”قرض چار پھولوں کا“……”ماں بولی کی موت“……”زندگی سے،ڈرتے ہو“…… ”فرشتوں سے بڑھ کر ہے انسان بننا“……”جلتے چنار“……دُھند کا راج“ ……  اسد طاہر جپہ کے ایک بھائی سیف انور جپہ بھی ایک اعلیٰ  افسر ہیں، انسان بھی بہت اعلیٰ ہیں، اعلیٰ افسر تو ہمارے ہاں بہت ہیں، اعلیٰ انسانوں کی بہت کمی ہے، اسد طاہر جپہ نے لِکھا ہے ”فرشتوں سے بڑھ کر ہے انسان بننا“…… اپنی اگلی کتاب میں اُنہیں ایک کہانی اِس عنوان کے تحت بھی لِکھی چاہیے”افسروں سے بڑھ کر ہے انسان بننا“……کِسی اور کو ہمارے انسان ہونے کا یقین کیا ہوگا خود ہمیں اپنے انسان ہونے کا یقین نہیں ہے۔ شاید اِسی لیے اکثر ایک دوسرے سے ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں ……”انسان بن“……  

مصنف کے بارے میں