سابق وزرائے اعلیٰ عبدالمالک بلوچ اور ثنا اللہ زہری سپریم کورٹ طلب

سابق وزرائے اعلیٰ عبدالمالک بلوچ اور ثنا اللہ زہری سپریم کورٹ طلب

کوئٹہ: چیف جسٹس پاکستان نے سابق وزرائے اعلیٰ بلوچستان مالک بلوچ اور ثناءاللہ زہری کو کل عدالت طلب کر لیا جب کہ اپنے ریمارکس میں ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں گورننس کے لیے تین وزرائے اعلیٰ آئے انہوں نے عوام کے لیے کیا کیا یہاں آ کر بتائیں۔

سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منصور علی پرمشتمل تین رکنی بینچ نے کوئٹہ میں سرکاری اسپتالوں، اسکولوں اور کالجوں کی حالت زار سے متعلق کیس کی سماعت کی جو عوامی شکایات پر کی گئی۔ کیس کی سماعت کے سلسلے میں چیف سیکریٹری، سیکریٹری صحت، سیکریٹری تعلیم اور دیگرحکام عدالت میں پیش ہوئے جب کہ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان رؤف عطاء نے صوبائی حکومت کی جانب سے کیسز کی پیروی کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے میڈیکل کالجز معیاری نہیں، نجی کالجوں میں بچوں سے 20 سے 25 لاکھ روپے لیے جاتے ہیں ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ وہاں یہ بزنس تو نہیں ہے اور ہماری کوشش ہے کہ 2 کروڑ بچوں کو رقم واپس ہو۔ چیف جسٹس نے میڈیکل کالج کے لیے 8 لاکھ 56 ہزار سے زائد فیس ری فنڈ کرنے کا حکم دیا۔

اسپتالوں کی حالت زار سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ حکومتی اسپتالوں کی حالت زار کیسی ہے۔ ہم نے اس سے متعلق بھی ایس او پی دی ہے اور میں کچھ اسپتالوں کا دورہ بھی کرنا چاہوں گا کیونکہ بلوچستان ہمارے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ سیکریٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ مریضوں کا کوئی علاج نہیں کر رہا۔

سیکریٹری صحت نے مزید بتایا کہ 21 فیصد نان ڈیولیپمنٹ بجٹ ہے اور صرف 6 فیصد ترقی پر خرچ ہوتا ہے اور بلوچستان میں کوئی پرائیویٹ اسپتال نہیں جبکہ ایک کالج ملٹری میڈیکل بورڈ کے زیر انتظام ہے۔

سیکریٹری صحت کی بریفنگ پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد وسائل صوبوں نے پیدا کرنے ہیں آپ وفاق کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ بلائیں ان وزرائے اعلیٰ کو جو یہاں 4 سال اقتدار میں رہے اور صوبے کے عوام کے لیے انہوں نے کیا کیا یہاں آ کر بتائیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صحت کامسئلہ بلا بن گیا ہے ممکن نہیں کہ 500 ارب روپے ایک دن میں مل جائیں اور اس کو ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے طور پر نہ لیں۔ اپنی خامیوں کو دور کرنے کے لیے مختصر اور طویل مدتی پالیسیاں بنائیں کیونکہ پالیسی ابھی منظور نہیں ہوئی جبکہ ماضی کی بجائے آگے دیکھیں اور مسئلہ حل کریں۔

چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری بلوچستان سے مکالمہ کیا کہ حکومت کے پاس چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں،پھر کون پالیسی منظور کرے گا؟۔ ہمارا مقصد اکھاڑ پچھاڑ کرنا نہیں بلکہ ضرورت ہے کہ عوام کو سہولت ملے اور آئین نے ہمیں پابند کر دیا ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق کے لیے اپنا فرض نبھائیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کراچی میں پانی کے مسئلے پر وفاق نے ہمارے نوٹس کے بعد فنڈز دیئے اور مسئلہ حل ہو گیا۔

علاوہ ازیں چیف جسٹس پاکستان نے سول اسپتال کوئٹہ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے مختلف شعبوں کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو بھی ان کے ہمراہ تھے۔ چیف جسٹس نے سول اسپتال میں صفائی کی صورتحال پراظہار برہمی کیا اور غفلت برتنے والوں کے خلاف فوری کارروائی کے احکامات جاری کیے۔

جسٹس ثاقب نثار نے ہڑتال پر بیٹھے ڈاکٹرز کے کیمپ کا دورہ کیا اور ان کے مطالبات سنے جس کے بعد چیف جسٹس کی یقین دہانی پر ڈاکٹرز نے ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹرز کے جو جائز مطا لبات ہیں انہیں تسیلم اور جو ناجائز مطالبات ہیں انہیں ابھی رد کرتا ہوں۔ جسٹس ثاقب نثار نے حکم دیا کہ صوبائی حکومت ڈاکٹرزکے جائز مطالبات پر عملدآمد یقینی بناتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کرے۔

 

 

نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں