مجھے اُس سے محبت کیوں نہیں رہی!

 مجھے اُس سے محبت کیوں نہیں رہی!

میں یہ لکھنے کی ہمت نہیں کرسکتا ’’ مجھے اُس سے نفرت ہوگئی ہے‘‘… مجھے صرف ایک ہی چیز سے نفرت ہے اور وہ نفرت ہے …میں لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو کبھی اس مقام پر نہیں آنے دیتا کہ لوگوں کو مجھ سے نفرت ہوجائے، یا مجھے لوگوں سے محبت نہ رہے، میں ان دنوں اپنی فیس بک وال پر وزیراعظم خان صاحب کے کچھ غیر آئینی وغیر اخلاقی اقدامات کے خلاف کچھ عرض کرتا ہوں اُن کے ’’پجاریوں‘‘ کی طرف سے ایسی ایسی گالیاں مجھے دی جاتی ہیں، ایسے ایسے غیر اخلاقی کمنٹس کیے جاتے ہیں، میراخون کھول کررہ جاتا ہے، مگر ظاہر ہے اللہ نے مجھے ایک شناخت ایک حیثیت سے نوازا ہے، میں اُن کے مقابلے پر نہیں اُتر سکتا، نہ قرآنی قول کے مطابق کسی جاہل سے بحث کرسکتا ہوں، میں تو خود کو ہرگز ایمان کے اُس درجے پر نہیں سمجھتا، مگر فرمایا گیا ’’اہل ایمان جو ہیں وہ اہل جہالت واہل سفاہت سے الجھتے نہیں ہیں بلکہ ایسے موقعوں پر اعراض وگریز کی پالیسی اختیار کرتے ہیں اور بے فائدہ بحث نہیں کرتے‘‘…سو میرے پاس خان صاحب کے اِن ’’پجاریوں‘‘ سے نمٹنے کا واحد حل یہ ہوتا ہے میں اُنہیں ’’بلاک‘‘ کردوں، پچھلے دنوں بادل نخواستہ کچھ ایسے لوگوں کو مجھے بلاک کرنا پڑا جن کے ساتھ فیس بک پر ایک طویل رفاقت تھی، … ہمارے ہاں اللہ جانے کیوں کچھ لوگوں کا یہ عمومی مزاج بن گیا ہے اگر آپ نے ایک بار کسی کے اچھے عمل کی وجہ سے اُس کا ساتھ دیا ہو تو اُس کے بعد وہ شخص ساری عمر جتنی چاہے بداخلاقیاں کرتا رہے، بدتمیزیاں کرتا رہے، لوگ چاہتے ہیں آپ اُس کے ساتھ ہی کھڑے ہوں، اگر اُس کے کسی غلط کام کی وجہ سے آپ اُس پر تنقید کرتے ہیں لوگ فوراً طعنہ دینے لگتے ہیں ’’کل تو آپ اُس کے حق میں یہ کہہ رہے تھے اور آج یہ کہہ رہے ہیں؟‘‘ پھر اُس کے بعد آپ پر غداری کے فتوے لگادیئے جاتے ہیں، …مہذب معاشروں میں ایسے نہیں ہوتا، مہذب معاشروں میں اگر کوئی غلط کام کرے لوگ دل کھول کر اُس کی تعریف کرتے ہیں اور وہی شخص اگر کوئی بُرا کام کرے لوگ دل کھول کر نفرت کا اظہار کرتے ہیں، …ہمارے کچھ اپوزیشن سیاستدانوں نے ماضی میں بداخلاقی کی جو روایات مقرر کررکھی تھیں، خصوصاً ایک دوسرے پر جس طرح کے گھٹیا اور شرمناک الزامات وہ لگاتے تھے، وہ قابل مذمت عمل تھا، اُن کی مذمت اس وقت بھی ہم کرتے رہے، ہمیشہ کرتے رہیں گے، … مگر خان صاحب سے کیا ہم نے یہ معاہدہ کررکھا تھا کہ وہ اگر اپوزیشنی سیاستدانوں سے زیادہ بداخلاقیوں کا مظاہرہ کریں، اُن کے ترجمان سرعام ٹی وی پر بیٹھ کر اپنے سیاسی مخالفین کو ننگی گالیاں دیں، اپنے مخالفین پر بغیر شواہد کے ’’غداری‘‘ کے الزامات لگائیں، معاشرے کو عدم برداشت کے آخری درجے پر لے جائیں، اور ہم اُس کے جواب میں خاموش رہیں گے؟ اور خاموش اِس لیے رہیں گے کہ وہ ’’ایماندار‘‘ ہے؟؟؟وہ ہرگز ایماندار نہیں ہے، ہمارے ہاں بدقسمتی سے صرف اُسی کو ’’ایماندار‘‘ سمجھا جاتا ہے جو رشوت نہیں لیتا، یا لُوٹ مار نہیں کرتا، میرے نزدیک کوئی شخص اپنے فرائض میں غفلت برتتا ہے، نااہل ہونے کے باوجود کسی اہم عہدے کے لیے خود کو ناگزیرسمجھتا ہے، اپنی سیاست چمکانے کے لیے ’’مذہبی کارڈ‘‘ کھیلتا ہے، ڈٹ کر جھوٹ بولتا ہے، رج کے منافقت کرتا ہے، دیگر بداخلاقیوں میں بھی اپنی مثال آپ ہوتا ہے، آپ کیسے اُسے ایماندار قرار دے سکتے ہیں ؟؟؟کہتے ہیں جب کسی کے پاس  اقتدار آتا ہے، یا جب اللہ کسی کو اُس کی اوقات سے بڑھ کر نواز دیتا ہے تو اس کی اصلیت کھل کر سامنے آجاتی ہے، جب تک خان صاحب اقتدار میں نہیں تھے، وہ اور ہی طرح کے خان صاحب تھے ہم اُن کی ’’تبدیلی‘‘ کے جھانسے میں بُری طرح جھلس گئے، …ہمیں یقین تھا یہ شخص جب اقتدار میں آئے گا پاکستان کو  ایسے مقام پر لے جائے گا جس طرح کے گورے ملکوں کے پاسپورٹ پر بے شمار ملکوں کے ویزوں کی ضرورت نہیں ہوتی اُسی طرح پاکستانی پاسپورٹ پر بھی بے شمار ملکوں کے ویزوں کی ضرورت نہیں ہوگی، ہم یہ سمجھتے تھے اُن کے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلا بل پارلیمنٹ میں کرپشن کی سزاموت کا اُن کی حکومت پیش کرے گی، اُس بِل کا منظور ہونا نہ ہونا الگ بات ہے مگر یہ ہوجائے گا کہ خان صاحب اس ملک سے کرپشن ختم کرنے میں واقعی بڑے سنجیدہ ہیں، … ہمیں یقین تھا اُن کے اقتدار میں آنے کے بعد تھانے کچہریاں بکنا بند ہو جائیں گی، ملک میں ہرجانب دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہوئی دکھائی دینے لگیں گی، ہم سوچتے تھے وہ جب اقتدار میں آئیں گے اس معاشرے میں اعلیٰ اخلاقیات کی نئی بنیاد رکھی جائے گی، رواداری ،قوت برداشت اور صبر جیسی نعمتیں فروغ پائیں گی، سیاست کے گھٹیاپن آہستہ آہستہ دم توڑنے لگیں گے، ایسی اعلیٰ اقدار متعارف کروائی جائیں گی پھر کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا ’’میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو… گھری ہوئی ہے طوائف تماشبینوں میں‘‘ … افسوس کچھ بھی نہیں ہوا… خان صاحب کو اقتدار میں آنا تھا، اُن کی زندگی کا سب سے بڑا یہ خواب پورا ہوگیا اور جو خواب لوگوں کو دکھا دکھا کر وہ اقتدار میں آئے تھے سب چکنا چور ہوگئے،…اِس قیامت کو سہنے کے باوجود اُن کے ’’پجاری‘‘ یہ چاہتے ہیں ہم غیر مشروط طورپر ان کا ساتھ دیتے رہیں ، کیونکہ ہم نے ماضی میں اُن کا ساتھ دیا تھا تو ہم پر لازم ٹھہر گیا ہے ہم قبرتک ان کا ساتھ دیتے رہیں، وہ اگر رات کو دن کہیں ہم بھی اُسے دن قرار دیں، وہ اگر دن کو رات کہیں ہم بھی اُسے رات قرار دیں، وہ اگر یہ سمجھیں آئین توڑنا ’’حُب الوطنی‘‘ ہے تو ہم اُنہیں پاکستان کا سب سے بڑا محب وطن قرار دیں، وہ اگر لوگوں کے دل توڑیں ہم اُسے اُن کی ’’عبادت‘‘ قرار دیں، وہ اگر مذہب کو اپنے سیاسی وذاتی مقاصد کے لیے استعمال کریں ہم اسے اُن کی عظمت قرار دیں، … نہیں نہیں حضور، ہم ایسا نہیں کرسکتے، میرا ریکارڈ میرا ماضی گواہ ہے اگر ماضی میں ہم نے کرپٹ، ظالم ، خوشامدی اور لالچی حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی دل کھول کر مخالفت کی، اُس کے نتائج بھی بھگتے، تو آپ سے ہم نے کوئی ایسا ’’معاہدہ‘‘ نہیں کررکھا، کوئی ایسا سودا نہیں کررکھا کہ آپ کے ہر غلط کام کی ہم مداح سرائی کرتے رہیں، آپ کے میراثی بنے رہیں گے، حتیٰ کہ آپ آئین توڑیں، ہم چُپ رہیں صرف اس لیے کہ ہم نے ماضی میں آپ کے کچھ ایسے کاموں کی تعریف کی ہوئی ہے تو ایسی صورت میں آپ کے کرائے کے پجاریوں کے نزدیک ہم پر لازم ہے تامرگ دم ہم آپ کے گن ہی گاتے رہیں، …(جاری ہے) 

مصنف کے بارے میں