سیالکوٹ واقعہ: میں یہ کس کے نام لکھوں!

سیالکوٹ واقعہ: میں یہ کس کے نام لکھوں!

حضرت شعیبؑ کی قوم کو اللہ نے تاریخ کے سخت ترین عذاب کے لیے اس لیے چنا تھا کہ وہ ایک تو ناپ تول میں کمی کرتے تھے پہاڑوں کو تراش کر اس میں گھر بناتے تھے جیسے انہوں نے ہمیشہ رہنا ہے ، راہ گیروں کو ایذا دینے اور تمسخر اڑانے کے لیے راستوں پر تھڑے بناتے تھے اور سب سے زیادہ ظلم کی بات یہ تھی کہ کسی کو معمولی غلطی یا جواز پر پکڑ کر اسے اتنی سخت سزا دیتے کہ اسے نشان عبرت بنا دیتے اور ایسا وہ کمزوروں اور ناتوانوں کے ساتھ کرتے تھے جب ان پر عذاب الٰہی کا کوڑا برسایا گیا تو قرآن کے الفاظ میں وہ ایسے ہو گئے اور ان کی بستیاں اتنی بری طرز سے تباہ برباد ہوئیں کہ وہ گویا کبھی یہاں رہے ہی نہیں۔ یہ قرآنی تمثیل مجھے اس لیے شدت سے خوف زدہ کر رہی ہے کہ سیالکوٹ میں ایک غیر مسلم پریانتھیا کمار کے ساتھ جو ہوا ہے وہ ہمیں مغضوب الٰہی کا شکار قوم شعیب کی یاد دلاتا ہے اور ڈر ہے کہیں پاکستان کے ساتھ بھی قوم شعیب والا معاملہ نہ ہو جائے۔ پریانتھیا کمار کو ہجوم نے جس طرح جیوری اور جلاد بن کر مقام عبرت بنایا اس سے دنیا بھر میں پاکستان کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ تشدد، عدم برداشت اور ظالمانہ سوچ کی اس سے زیادہ تصویر کشی ممکن نہیں۔ جن لوگوں نے اس کارِ شر میں حصہ لیا ہے یہ کوئی طاقتور لوگ نہیں ہیں نہ ہی یہ دولت مند ہیں یہ تو خود ریاستی استحصال کے کے مارے ہوئے لوگ تھے جو ظالم اور جابر کے آگے دم دبا کر بلی بن جاتے ہیں مگر ہماری معاشرتی سوچ کی عکاسی اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ خاک نشیں اور گئے گزرے طبقے کی بھی اگر داڑھ کے نیچے کوئی بے بس آجائے تو اس کے لیے رحم کی کوئی گنجائش نہیں۔ پاکستان میں رہنے والا ہر شخص بیک وقت ظالم بھی ہے اور مظلوم بھی وہ اپنے سے بڑے کا ظلم سہتا ہے اور اپنے سے کمزور پر گرفت کرتا ہے تو بڑی بے رحمی سے کرتا ہے۔ 
سیالکوٹ واقعہ کے ساتھ ہی فیصل آباد میںملت ٹاؤن کے علاقہ میں غریب کاغذ چننے والی عورتوں کو معمولی چوری کے الزام میں ہجوم نے برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر ان کی فلم بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی یہ اس تکلیف دہ حقیقت کا ایک اور ثبوت ہے کہ ہم ذہنی طور پر کتنے بڑے فرعون ہیں۔ ہمیں جہاں موقع ملتا ہے ہم کسی کو معمولی سی رعایت کے روا دار نہیں ہیں کچھ عرصہ پہلے امریکی جریدے نیوز ویک نے اپنے سرورق کی کہانی کو یہ عنوان دیا تھا کہ دنیا کا سب سے خطرناک ملک عراق نہیں بلکہ پاکستان ہے۔ 
ہم تو خوش ہو رہے تھے کہ بالآخر تحریک لبیک پاکستان نے اپنے مطالبات کی فہرست میں سے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے مطالبے سے دست برداری اختیار کر لی ہے لیکن معاشرے کے نچلی ترین تہہ میں تشدد، عدم برداشت اور جبر کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ہمیں معاشرتی طور پر سدھرنے کے لیے عمر خضر درکار ہے۔ فرانس کے معاملے پر یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے پاکستان کے خلاف قرا داد پاس کر رکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک طرف تو پاکستان یورپی یونین کی منتیں کرتا ہے کہ ہمارا GSP سٹیٹس جو پاکستان کی مصنوعات کو رعایتی بنیادوں پر وہاںایکسپورٹ کی خصوصی اجازت دیتا ہے اسے واپس نہ لیا جائے جبکہ دوسری طرف پاکستان بات بات پر انہیں آنکھیں دکھاتا ہے ۔ حکمران جماعت نے مذہبی جماعت سے معاہدہ کیا تھا کہ فرانس کے سفیر کا معاملہ پاکستانی پارلیمنٹ میں اٹھایا جائے گا یہ ایک رسوا کن معاہدہ تھا جس کی Heat اتنی بڑھ گئی کہ وزیراعظم عمران خان کو کہنا پڑا کہ یہ معاہدہ کس نے کیا تھا گویا وہ لاعلمی کا اظہار کر رہے تھے۔ سفارتی طور پر بھی یہ ایک بہت ہی غلط روایت تھی۔ 
اس پس منظر میں FATF کی گرے لسٹ کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے پاکستان کا نام اس لیے ڈالا گیا ہے کہ غیر قانونی فنڈنگ غیر قانونی سرگرمیوں اور دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ پاکستانی ریاست اللہ اللہ کر کے عالمی دنیا کو قائل کرتی ہے کہ ہم امن پسند ہیں اور ساتھ ہی کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے کہ سارے کیے پر پانی پھر جاتا ہے۔ 
سیالکوٹ کے واقعہ کی بازگشت آنے والے وقت میں پاکستان کی بگڑتی ہوئی معیشت کو مزید مشکلات میں دھکیل سکتی ہے۔ سیالکوٹ جو پاکستان کا ایکسپورٹ HUB بھی ہے وہاں سے اس طرح کی واردات بیرون ملک سے ایکسپورٹ آرڈرز کو متاثر کرے گی جس کمپنی میں یہ واقعہ ہوا ہے یقینی طور پر انٹرنیشنل برانڈ ان کے ساتھ معاہدہ کینسل کر دے گا کیونکہ انہوں نے برانڈ کے غیر ملکی کوالٹی کنٹرولر کو بچانے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ صبح سے لے کر گیارہ بجے تک یہ واقعہ چلتا رہا مگر کمپنی مالکان نے پولیس بلانے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ بنگلہ دیش اور انڈیا والے خوش ہو رہے ہیں کہ مذکورہ برانڈ کو اپنی طرف متوجہ کر کے آرڈر حاصل کیے جائیں پریانتھا کو زندہ جلانے کا کیس کمپنی مالکان پر بھی بنتا ہے کہ انہوں نے مرتے ہوئے شخص کی جان بچانے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ نور مقدم قتل کیس میں ملزم کے والدین اور سکیورٹی گارڈز پر یہی الزام تھا جس پر ان کو قتل کی دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ 
اسی اثنا میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ ریلیز ہوتی ہے جس میں حکومتی کرپشن پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے اس میں پولیس پہلے اور جوڈیشری دوسرے نمبر پر ہے اور احتساب کو جانبدار قرار دیا گیا ہے یہ چیزیں معاشرتی شکست و ریخت اور کھوکھلا پن اور اخلاقی دیوالیہ پن کی عکاسی کرتی ہیں۔ 
حکومت نے سیالکوٹ واقعہ میں بھی کاسمیٹک سرجری کا اہتمام کر لیا اور ملک عدنان کو مقتول کو بچانے کی کوشش پر اعلیٰ ایوارڈ دینے کا اعلان کیا گیا۔ یہ شاید ڈپلومیٹک سطح پر درجۂ حرارت کم کرنے کے لیے کیا گیا ہے اصل راست اقدام یہ ہے کہ ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے یہ کون لوگ تھے جو جلتی ہوئی لاش کے ساتھ سیلفی بنانے میں تسکین محسوس کر رہے تھے۔ وزیراعظم نے فرمایا ہے کہ میں جب تک زندہ ہوں ایسا دوبارہ نہیں ہو گا۔ یہ وہی وزیراعظم ہیں جنہوں نے واقعہ ساہیوال پر کہا تھا کہ جب تک قاتلوں کو سزا نہیں ملے گی میں چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ عدم برداشت کو برداشت کرنا بزدلی ہے۔ ریاست کے پاس اپنی طاقت اور رٹ موجود ہے تو پھر ان جرائم پر سزا کیوں نہیں ملتی اس کا جواب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دے دیا ہے کہ پولیس اور جوڈیشری کرپشن میں سر فہرست ہیں۔ 
میں یہ کس کے نام لکھوں
جو الم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں
میرے لوگ مر رہے ہیں
کوئی اور تو نہیں ہے
پس خنجر آزمائی
ہم ہی قتل ہو رہے ہیں
ہم ہی قتل کر رہے ہیں