سلطانی گواہ

سلطانی گواہ

پرویز الٰہی اور مونس الٰہی نے صرف تصدیق کی ورنہ ہر صاحب نظر دیکھ رہا تھا کہ ملک میں چلنے والے بھونڈے اور بے ہودہ ڈرامے کا پروڈیوسر کون ہے۔ یہ کہنا کہ پرویز الٰہی جنرل باجوہ کے اشارے پر پی ٹی آئی سے جاملے اس لیے اہم ضرور ہے کہ جب کوئی فریق خود ہی اعتراف کرلے تو پھر بحث کرنے کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا۔ جنرل باجوہ اور ان کے قریبی ٹولے کو جب مکمل طور پر اندازہ ہوگیا کہ عمران خان نے ملک کو معاشی انتظامی اور سفارتی دلدل میں پھنسا دیا ہے تو سیاسی قوتوں کو پیغام دیا گیا کہ وہ آگے بڑھ کر تحریک عدم اعتماد لے آئیں فوجی قیادت رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض دونوں کا ریکارڈ اس حوالے سے کافی خراب تھا کہ وہ وعدے کرکے مکر جاتے ہیں۔ اسی لیے سیاسی جماعتوں نے آپس میں مشاورت کرتے ہوئے اس پہلو کو مد نظر رکھا۔ آصف زرداری محرک بنے اور سب کو منایا پھر حکومت کی اتحادی جماعتوں سے بھی رابطے کیے جو پہلے ہی پی ٹی آئی کے خلاف تھیں مگر گن پوائنٹ پر ساتھ چلنے پر مجبور کردیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو ہٹا کر ملک میں سیاسی استحکام پیدا کیا جانا تھا تاکہ معاشی اور سفارتی محاذوں پر ڈیمیج کنٹرول کے لیے راہ ہموار کی جاسکے۔ ان سیاسی دماغوں نے بہت سوچ بچار کے بعد ایک سکیم تیار کی۔ ن لیگ کسی طور ق لیگ سے ہاتھ ملانے پر تیار نہ تھی مگر یہ مشکل مرحلہ بھی سر کرلیا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی ایک ہی سیاسی اتحاد کے زیر کمان وفاقی اور پنجاب حکومتیں سنبھالنے پر رضامند ہوگئے۔ یہ فارمولا  اپنی اصل شکل میں آگے بڑھتا تو پی ٹی آئی کے ساتھ اسکی کے پی کے حکومت بھی خود بخود دیوار کے ساتھ لگ جانا تھی۔ لیکن اس پر عمل درآمد ہونے سے پہلے ہی آخری لمحے پر جنرل باجوہ نے پرویز الٰہی کو معاہدہ توڑ کر پی ٹی آئی میں جانے کی ہدایت کردی۔ یوں کھیل اس برے انداز میں خراب ہوا کہ آج تک بگاڑ ہی بگاڑ ہے۔ پنجاب میں عدلیہ کے ذریعے پرویز الٰہی کو تھوپا گیا تو سپریم کورٹ سے ایک ہی طرح کے کیسوں میں دو الگ الگ فیصلے کرائے گئے جس پر پوری دنیا ہنس رہی ہے۔ ایسے عدالتی فیصلوں کے ذریعے ہی بالواسطہ طور پر یہ بھی یقینی بنایا گیا کہ صدر عارف علوی ایوان صدر میں براجمان رہیں۔ سپریم کورٹ سے فیصلہ کرایا گیا کہ ارکان اسمبلی صرف وفاداریاں بدلنے کی نیت کرنے پر ہی نااہل ہو جائیں گے یعنی جو جرم ہوا ہی نہیں اس کی بھی سزا ملے گی۔ اس کے ساتھ ہی عمران خان اور پی ٹی آئی کو عدالتوں سے ایسے غیر معمولی ریلیف دلوائے گئے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ عدالتوں کے ذریعے ہی وفاقی حکومت کا محاصرہ کرکے اسے کئی معاملات میں ہاتھ پیر باندھ دئیے گئے۔ صاف ظاہر یہ سب کچھ جنرل باجوہ محض اس لیے کرارہے تھے کہ ملک میں سیاسی جماعتیں اور جمہوری سسٹم مضبوط نہ ہو۔ وفاقی حکومت ادھر ادھر سے پیسے مانگ کر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچائے جبکہ عمران خان دو صوبائی حکومتوں کے وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے تلوار بن کر حکومتی سیاسی اتحاد کے سر پر لٹکتے رہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے جنرل باجوہ کا مقصد ایک ہی تھا کہ ملک میں مشکلات اس قدر بڑھا دی جائیں کہ سب کسی حل کے لیے ان کی ذات کی جانب دیکھیں۔ جنرل باجوہ سے مشترکہ درخواست کی جائے کہ وہ چھ سال کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بھی آرمی چیف کا عہدہ نہ چھوڑیں۔ یہ پلان اس حد کامیاب بھی ہوگیا تھا کہ عمران خان 
نے جنرل باجوہ کو تاحیات چیف آف دی آرمی سٹاف بنانے کی پیشکش کردی تھی۔ حکومتی اتحاد پر بھی زبردست دباؤ تھا عین ممکن تھا کہ وہ بھی جنرل باجوہ کی بیعت کرلیتے مگر چندسینئر سیاستدان خصوصاً نواز شریف آڑے آگئے۔ جنرل باجوہ نے اپنی دوسری ٹرم مکمل ہونے کا آخری لمحہ آنے تک فوج میں اپنے اختیارات کا جس انداز میں استعمال کیا وہ سب سے بڑا ثبوت ہے کہ جنرل صاحب گھر جانے پر آمادہ نہیں تھے۔ اگرچہ جنرل باجوہ کی جانب سے نئے آرمی چیف کے لیے چند ناموں کی مخالفت اور جنرل ساحر شمشاد مرزا کی سفارش کی گئی لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ کرسی سے چمٹے رہنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس سلسلے میں پلاننگ بہت پہلے ہی شروع کردی تھی۔ جہاں پرویز الٰہی کو پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑا کرکے حکومتی نظام کا ہموار طریقے سے چلنا ناممکن بنا دیا۔ وہیں سپریم کورٹ سمیت عدالتوں کا بھرپور استعمال کیا۔میڈیا کے ایک حصے کو اداروں پر تنقید کی کھلی چھوٹ دی۔ لوگ حیران تھے جن مالکان کے متعلق یہ پختہ تاثر تھا کہ وہ شاید کسی تھانیدار کے آگے کھڑے ہونے کے متحمل نہیں ہوسکتے ان کے چینل فوج مخالف بیانیہ بنانے میں پیش پیش کیسے ہیں؟ سوشل میڈیا پر بھی پی ٹی آئی کو اس قدر چھوٹ دی گئی کہ جنرل باجوہ کی قائم کردہ پرویز الٰہی کی پنجاب حکومت میں عمران خان کے سوشل میڈیا کمانڈر ان چیف کو وزیر کا عہدہ دلوایا گیا۔ کے پی کے حکومت کے وسائل بھی پراپیگنڈہ کے لیے استعمال کیے گئے مزے کی بات ہے کسی عدالت نے کوئی نوٹس نہیں لیا اور رونے کا مقام ہے کہ ملک میں افراتفری جاری رکھنے کے فوج کے ادارے کو بھی رگڑا لگانے کی اجازت دی گئی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان کے دور میں سی پیک بند ہوا، بھارت نے ڈکار مارے بغیر مقبوضہ کشمیر ہڑپ کرلیا، پاکستان آئی ایم ایف کی غلامی میں چلا گیا۔ جنرل راحیل شریف کی طرح جنرل باجوہ کے ساتھی بھی ان کو مسیحا بنا کر پیش کرتے رہے۔ وہ معیشت پر اکثر لیکچر جھاڑتے رہتے تھے حالانکہ اس حوالے سے ان کی واحد کوالیفیکیشن جنرل مشرف کے مارشل میں بطور بریگیڈئر لاہور میں تعیناتی کے دوران ٹاوٹ تاجروں کی تنظیم”قومی تاجر اتحاد“ بنانا تھی۔ کسی نے ان کو بتا دیا تھا کہ بھارت سے تجارت کھول کر بہت فائدہ ہوسکتا ہے مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ بھارت اس حوالے سے آمادہ کیسے ہوگا۔ بھارت سے ایل او سی پر سیز فائر کا معاہدہ کیا گیا اور باربار بیانات دئیے گئے کہ ممالک نہیں بلکہ خطے ترقی کرتے ہیں مگر پاکستان کی اندرونی صورتحال پر نظر رکھنے والی بھارتی قیادت نے اسے پاکستان کی مجبوری سمجھتے ہوئے مسلسل سرد مہری اختیار کیے رکھی۔ جنرل باجوہ کے دور میں سیاسی جماعتوں کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس وقت کے گیٹ نمبر چار کے ترجمان شیخ رشید نے کئی بار کہا کہ جیلوں سے (نواز شریف اور آصف زرداری) کے تابوت ہی آئیں گے۔ یہ منصوبہ بھی فرزند راولپنڈی کی زبانی ہی افشا کیا گیا کہ 2020ء میں خصوصی عدالتیں بنا کر ملک کے تمام اہم سیاستدانوں کو نااہل قرار دے دیا جائے گا۔ وہ تو بھلا ہو مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کا کہ جس نے باجوہ اینڈ کمپنی کو اپنی پالیسی پر ازسر نو غور کرنے پر مجبور کردیا۔ اسکے بعد پی ڈی ایم کی تحریک نے اسٹیبلشمنٹ کو ایسے ارادوں سے پرے رہنے کی راہ دکھا دی۔ یہ حقیقت ہے کہ کچھ جماعتوں کی مصلحتوں کے باعث پی ڈی ایم نہ ٹوٹتا تو آج ہم کسی اور ہی طرح کی جمہوری فضا میں سانس لے رہے ہوتے۔ آج وفاقی حکومت کی کمزوری کا یہ عالم ہے کہ آئی ایم ایف کی قسط رکوا کر پاکستان کو دیوالیہ کرنے کی سازش کرنے والے شوکت ترین، تیمور سلیم جھگڑا اور دیگر کرداروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو پا رہی۔ عمران خان کے اپنے خلاف جو کیس ابھی انکوائری کے مرحلے پر ہی ہوتا ہے اس کے بارے عدالتوں سے حکم آجاتا ہے کہ تا حکم ثانی تحقیقات ہی روک دی جائیں۔یہ تاثر سرے سے باطل ثابت ہوچکا کہ جنرل باجوہ عہدے پر رہتے ہوئے کمزور ہوچکے تھے یا پی ٹی آئی کے دباؤ میں آگئے تھے۔ پی ٹی آئی پورا زور لگا کر وزیر آباد حملے میں اپنی مرضی کی ایف آئی آر درج نہ کر اسکی۔ کور کمانڈر پشاور کے گھر کے باہر ہلڑ بازی کرنے والے پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی سمیت 25 کارکنوں کے خلاف مقامی تھانیدار نے مقدمہ درج کردیا۔ ادھر حکومت پر دباؤ کا یہ عالم تھا کہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکت کرنے پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ سے استعفا لے لیا۔ اسی تقریب میں شریک وزیر خارجہ بلاول بھٹو پر اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اپنے الفاظ کی وضاحت جاری کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جنرل باجوہ اگر تحریک عدم اعتماد کے ساتھ ہی اپنی پلاننگ شروع نہ کرتے تو سیاسی جماعتوں کی اتحادی حکومت نے عمران خان اور پی ٹی آئی کا معاملہ اپنے طریقے سے”سلجھا“ دینا تھا۔ ایسا ہوجاتا تو پہلے سیاسی پھر معاشی استحکام پیدا ہونے کے ٹھوس امکانات تھے۔ بڑے بڑے ریٹائر افسر اور نام نہاد دفاعی تجزیہ کار جو چینلوں پر بیٹھ کر جمہوری سیاستدانوں کو طعنے دیتے ہیں کو انہوں نے اپنی صرف ایک بوٹی کے لیے پوری گائے ذبح کردی، اب اس حوالے سے کوئی تبصرہ فرمائیں گے؟