ہا ئے اْس زود پشیماں کا پشیماں ہو نا

ہا ئے اْس زود پشیماں کا پشیماں ہو نا

قارئین کرام، یہ تو آ پ کے علم میں ہو گا کہ وقتِ وداع جنرل با جو ہ صا حب نے نامور صحافیوں کے ساتھ الوداعی میٹنگ کی تھی اس میٹنگ میں ایک خا تون صحافی نے بڑا اہم سوال پوچھا کہ باجوہ صاحب ہائبرڈ رجیم پرو جیکٹ آپ کی وہ ناکامی ہے جسے فوج کو کئی دہائیوں تک بھگتنا ہو گا - باجوہ صاحب نے حق گوئی کا مظاہرہ کیا اور بڑے دکھی دل کے ساتھ کہا کہ ہم چارجنرلز پی ٹی آئی پر قربان ہوئے ہیں اور بڑا دکھ یہ ہے کہ فوج کی ساکھ کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے- ہم نے دیکھا کہ سی پیک آ چکا ہے معیشت مضبوط ہے تاریخ میں پہلی بار پاکستان اتنا سٹرونگ (strong) تھا ڈالر بھی کانسٹنٹ تھا ہم نے ان کے لیے تما م راستے کلیئر کیے اور ا س نے ہمیں یقین دلایا کہ معیشت اس سے بھی بہت زیادہ بہتر ہو گی کیونکہ ہمارے پاس 200 بندوں کی معاشی ٹیم ہے لیکن ہمیں چند مہینوں میں ہی احساس ہو گیا تھا کہ ہم بہت بڑی غلطی کر بیٹھے ہیں چونکہ ہم اس کا حصہ تھے اس لیے ہم نے آخری دم تک ا ن کے ملکوں سے تعلقا ت بہتر کرانے کی کوشش کی لیکن یہ نہ چل سکا کیونکہ یہ صرف باتیں ہی کر سکتا تھا عملاًان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا- مزید تباہی سے بچنے کے لیے ہم نے نیوٹرل ہونا ہی بہتر جانا اب ہمیں گیٹ نمبر 4کو مکمل طور پر ہر قسم کے سیاستدانوں کے لیے بند کرنا ہو گا اسی میں پاکستان کی بھلائی ہے۔
تو قارئین کرام، اس تمہید کے بعد کہنا یہ ہے کہ معاشی حالات کو اس نہج تک پہنچانے میں اس دہائی کے دوران آنے والی حکومتوں کا اہم کردار ہے۔وہ یوں کہ گزشتہ ہفتے انٹرنیشل سکوک بانڈ کی ایک ارب ڈالر کی ادائیگی سے حکومت نے دیوالیہ پن کے فوری خطرات کو تو ٹال دیا لیکن معاشی ماہرین آنے والے چند برس میں جن ادائیگیوں کے لیے انتظامات کی جانب توجہ دلارہے ہیں وہ بلاشبہ غیرمعمولی ہیں۔ آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق اگلے تین برس کے دوران پاکستان کو 73 ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کرنا ہیں، جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر اس کا عشرعشیر بھی نہیں۔ معاشی حالات کو اس نہج تک پہنچانے میں اس دہائی کے دوران آنے والی حکومتوں کا اہم کردار ہے۔ اس دوران ملک کے بیرونی قرضوں میں دو گنا اضافہ ہوا اور 2015ء میں بیرونی قرضو ں کا جو حجم 65 ارب ڈالر تھا، گزشتہ مالی سال تک 130 ارب ڈالر تک پہنچ گیامگر بھاری غیرملکی قرضوں کے باوجود قومی آمدنی بڑھانے کے لیے معاشی استحکام اور پائیدار منصوبوں کو ترجیح نہیں دی گئی، نہ ہی برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ قومی
شماریات کی رپورٹ کے مطابق پچھلے سات برس میں برآمدات کے حجم میں صرف 13 فیصد اضافہ ہوا مگر اس دوران درآمدات 85 فیصد بڑھ گئیں۔ گزشتہ سات برس کے دوران کھلے دل سے غیرملکی قرضے لیے گئے مگر ان کی ادائیگی کہاں سے ہو گی، اس جانب توجہ نہیں دی گئی اور بتدریج یہ قرض کا پہاڑ آج اس قدر اونچا ہوچکا ہے کہ ہماری کمزور معیشت اس کے مقابلے میں منحنی معلوم ہوتی ہے۔ یہ صورتحال ہرچند کہ نہایت تشویش ناک ہے مگر اس
سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں؛ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے میں مزید غفلت کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ بڑھتے ہوئے قرضوں کے مقابلے میں قومی آمدنی میں کیوں اضافہ نہ ہوا، یہ ایک کھلا راز ہے۔ قومی آمدنی میں اضافہ کرنے کی جانب ہماری حکومتوں کی غیردلچسپی ڈھکی چھپی نہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ فی زمانہ پاکستان ان ممالک میں نمایاں ہے جہاں معیشت کا بڑا حصہ غیر دستاویزی ہے۔ حکومتیں اشیائے ضروریہ اور پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود شعبوں پر بوجھ ڈالتی ہیں مگر اصلاح کے وہ اقدامات جو اَب تک نہیں کیے جاسکے اور جہاں فی الحقیقت اصلاح کی ضرورت ہے اس جانب کوئی توجہ نہیں۔ ہر آنے والی حکومت نے اپنی آمدنی میں اضافے کے ان امکانات پر کام کرنے کے بجائے قرضوں کے آسانی کو ترجیح دی مگر اب یہی تن آسانی قومی معیشت کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے بڑے فیصلوں اور فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے، مگر یہ سیاسی بحران، جس میں ملک مبتلا ہے، کسی جامع معاشی اقدام کی گنجائش پیدا نہیں ہونے دے گا؛ چنانچہ ضروری ہے کہ سیاسی استحکام پیدا کیا جائے اور اتفاقِ رائے کے ساتھ وہ قدم اٹھائے جائیں جن کے بغیر ہمارا قومی، معاشی اور سیاسی بحران ختم نہیں ہوسکتا۔ مزید سیاسی خاک اڑانے میں وقت ضائع کرنے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے اس قومی اہمیت کے معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ادائیگیوں کا جو پہاڑ سامنے ہے اسے سر کرنے کی منصوبہ بندی بغیر وقت ضائع کیے ہونی چاہیے مگر اس کے لیے ناگزیر ہے کہ ملک میں سیاسی امن اور استحکا م کا ماحول ہو۔ رواں سال جس قسم کے سیاسی حالات میں گزرا ہے اس میں معاشی بحران پیچیدہ تر صورت حال اختیار کر گیا ہے۔ حکومت نے اپنی سی کوششیں کی ہیں مگر یہ سب قومی معیشت کے لیے کچھ دقت طلب کرنے سے زیادہ نہیں۔ پائیدار بہتری میں جو بڑی رکاوٹیں درپیش ہیں سیاسی انتشار ان میں سرفہرست ہے؛ چنانچہ سیاسی انتشار میں کمی کرنا ہوگی اور ملک کے لیے طویل مدتی معاشی پالیسی کے لیے اتفاقِ رائے قائم کرنا ہو گا۔ ماضی میں ہماری حکومتوں نے جو تجربات کیے اب انہیں دہرانے کی گنجائش نہیں۔ ملکی قیادت کو اب محتاط ہوکر چلنا اور ماضی کی ان ذمہ داریوں کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہو گا۔