سب کو ملک کی فکر

سب کو ملک کی فکر

پشاور میں دہشت گردی کی ایک ہی واردات میں سو سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ ایسے میں سب کو ملک کی فکر ہونا ایک فطری امرتھا لیکن آفرین ہے تحریک انصاف اور اس کے قائد پر کہ جب سانحہ پشاور کے بعد سب کو ملک کی فکر تھی تو اس وقت بھی عمران خان کو صرف اپنی فکر تھی۔پشاور کہ جہاں سے عمران خان کو عوام نے ووٹ دے کر جتوایا تھا وہ عمران خان اپنی ذات کے حصار میں قید زمان پارک میں بیٹھے رہے اور اسی سالہ بوڑھا بلور جو اس حلقے سے ہار گیا تھا وہ ہسپتالوں میں جا کر زخمیوں کی عیادت کر رہے تھے۔ تین ماہ سے زیادہ ہو چکے ہیں پتا نہیں وہ کون سی منحوس گولی تھی کہ جس کا زخم درست ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا حالانکہ پرانے وقتوں میں جب زہر میں بجھا ہوا تیر یا بھالا کسی کو لگتا تھا اور میڈیکل سائنس کا تو وجود تک نہیں تھا تو وہ زہریلا زخم بھی اتنے عرصہ میں ٹھیک ہو جاتا تھا لیکن کیا تحریک انصاف کی پوری قیادت بشمول پشاور سب ہی زخمی ہو کر گھروں میں علاج کروا رہے ہیں کہ نہ تو پشاور کے زخمیوں کی عیادت کے لئے کوئی پہنچا اور نہ ہی مرنے والوں کی نمازہ جنازہ میں کوئی شریک ہوا بلکہ اس دوران سب زمان پارک میں حاضریاں لگاتے رہے۔سوائے تقریریں کرنے کے ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ آج تک تحریک انصاف کی قیادت نے کچھ کیا بھی ہے اور تقریروں میں بھی ایسی خلاف حقیقت باتیں کہ ا لامان و الحفیظ۔ آپ کو یاد ہے کہ فواد چوہدری نے کیا کہا تھا کہ لانگ مارچ کے اختتام پر پنڈی میں جو جلسہ ہو گا پچیس سے تیس لاکھ افراد شریک ہوں گے۔ حال ہی میں گرفتار ہونے والے شیخ رشید نے کہا تھا کہ اگر لال حویلی کا قبضہ لینے کے لئے فوج یا رینجرز آئے گی تو وہ حویلی کا قبضہ دے دیں گے لیکن اگر پولیس یا ایف آئی اے کے اہل کار آئے تو ایسی تیسی کر دیں گے پھر نہ رینجر آئی اور نہ فوج بلکہ پولیس نے ہی آکر قبضہ لے لیا اور گرفتاری پر پورا پنڈی شہر بند کرنے اور مری روڈ بلاک کرنے کی دھمکیاں دی گئیں لیکن زندگی معمول کے مطابق رواں دواں رہی۔ فواد چوہدری کی گرفتاری پر خود خان صاحب نے دو تین دن احتجاج کی کال دی لیکن وہ بھی ٹائیں ٹائیں فش ہو گئی۔
ہم اکثر کہتے ہیں کہ سیاست میں جھوٹ بولا جاتا ہے اور یہاں کوئی گنگا نہایا نہیں لیکن پنڈی جہاں پندرہ سے بیس ہزار لوگ نہ آئیں لیکن دعوے بیس سے پچیس لاکھ افراد کے کرنا یہ زیادتی ہے آپ بھی جھوٹ بولیں لیکن خدارا بلنڈر تو نہ کریں۔ اب ایک ٹاک شو میں ہم خیال اینکرز میں سے ایک نے ایسی زبردست بونگی ماری کہ اس کے بعد خان صاحب کے فین کلب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اس بونگی کو پورے سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا کہ آئی ایم ایف نے قرض دینے کے لئے شرط رکھ دی ہے کہ اس کے لئے عمران خان کی گارنٹی چاہئے اور ان کے دستخط چاہئیں۔ اب حکومت اور آئی ایم ایف کا معاہدہ اگر ہوتا ہے تو ہم خیال گروپ کے جس بندے نے یہ بونگی ماری ہے اور اس کے بعد جنھوں نے اسے وائرل کیا وہ اس معاہدے میں عمران خان کے دستخط دکھا دیں لیکن سیانے کہتے ہیں کہ دو بندوں کا آپ کچھ نہیں بگاڑ سکتے ایک وہ جو دریا پار سے پتھر مارے اور دوسرا جو منہ پر مکر جائے۔قارئین کو یہ بھی یاد ہو گا کہ خان صاحب خاص طور پر اور پوری تحریک انصاف خیبر پختون خوا پولیس کی کیسے تعریف کرتے تھے لیکن جب وقت آیا تو پتا چلا کہ وہاں کی پولیس کو تو ایک طرح سے لا وارث چھوڑ دیا گیا تھا اور جو صوبہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر تھا اور اس جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کر رہا تھا دس سال حکومت کرنے والوں نے اس صوبہ میں فرانزک لیب تک نہیں بنوائی اور اینٹی ٹیررازم کے دفاتر بھی کرائے کی بلڈنگ میں تھے۔ 2013میں جب حکومت میں آئے تھے تو صوبہ ایک ارب روپے کا مقروض تھا اور اب نو سو ارب زیادہ کا مقروض ہے۔ جس پولیس کی مدح سرائی میں نو سال گذار دیئے اسے کس طرح دہشت گردوں کے مقابل لاوارث چھوڑا گیا اس کا پتا اب چل رہا ہے لیکن یہ اب بھی ان کی ترجیحات میں نہیں ہے اور وہ عمران خان اور تحریک انصاف کہ جو حکومت میں آنے کے چار سال بعد بھی جو کچھ ہوتا تھا اس کی ذمہ داری سابقہ حکومتوں پر ڈالتی تھی لیکن اب خا ن صاحب نے کہا ہے کہ مجھ پر دہشت گردی کی ذمہ داری کیسے آ سکتی ہے میں تو حکومت میں ہی نہیں ہوں۔
سب کو ملک کی فکر ہے لیکن خان صاحب کو اپنی فکر کھائے جا رہی ہے اور اسی ضمن میں انھوں نے جیل بھرو تحریک شروع کرنے کی دھمکی دے دی اور جس طرح مریم نواز اور دیگر حکومتی مشیر وزیر انھیں اس پر ہلہ شیری دے رہے ہیں لگتا ہے کہ حکومت ان سے یہ کام بھی کروا لے گی لیکن اتوار کو شہباز گل نے جو بیان دیا ہے وہ بھی دیکھ لیں۔ انھوں نے کہا کہ عمران خان کی ہدایت کے باوجود بھی تحریک انصاف کے رہنما تاریخوں پر نہیں آئے۔جو لوگ کسی کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لئے تاریخوں پر نہیں آ سکے تو کیا خیال ہے کہ وہ جیل بھرو تحریک میں جیل جانے کے لئے آ جائیں گے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ عمران خان خوش فہمی کی کس دنیا میں رہتے ہیں انھیں شاید یاد نہیں کہ 2014میں جب اسٹبلشمنٹ بھی ان کے ساتھ تھی اور پورا میڈیا بھی ان کے گن گا رہا تھا تو اس وقت انھوں نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر اپنے گھر کا بجلی کا بل جلا کر سول نا فرمانی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تھا کہ جس پر کبھی عمل نہیں ہو سکا۔ موجودہ حالات کی اگر بات کریں تو سو کے قریب جلسے کرنے کے بعد سندھ اور وفاق کے علاوہ پورے پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومتیں تھیں لیکن نہ لانگ مارچ کامیاب ہو سکا اور نہ ہی تمام تر کوششوں اور بڑھکوں کے باوجود پنڈی میں کوئی متاثر کن مجمع اکٹھا کیا جا سکا کہ دھرنے کے پروگرام پر عمل کیا جا سکے اور اس کے بعد زمان پارک میں کتنے کارکن موجود ہیں تو جب حکومتیں بھی اپنی نہ رہیں اور جنرل باجوہ بھی نہیں ہیں چند دن بعد سردی کا موسم بھی گرمی میں بدل جائے گا تو ایسے میں جیل بھرو تحریک سے رہا سہا بھرم بھی ختم ہو جائے گا اور پھر ایسے رہنما اور ایسی بلند حوصلہ قیادت پوری دنیا کی تاریخ چھان کر دیکھ لیں آپ کو نہیں ملے گی کہ دو دن جیل میں رہنے کے بعد شہنشاہ جذبات بن جاتے ہیں اور ان کی آہ و بکا اور رونا دھونا ہی بند نہیں ہوتا اور خدا ہر ایک کو بری گھڑی سے محفوظ و مامون رکھے جس طرح گلے لگ کر روتے ہیں ملکہ جذبات نیئر سلطانہ بھی ایسے زبردست ٹریجڈی سین فلمبند نہیں کروا سکیں تو جن سے دو دن کی جیل برداشت نہیں ہوتی تو ان سے جیل بھرو تحریک کی توقع کس طرح کی جا سکتی ہے لیکن جیسا کہ عرض کیا کہ خان صاحب کو ہلہ شیری دے کر پہلے دونوں صوبوں سے ان کی حکومتیں ختم کروائی گئیں اور اب بھی کوئی اور نہیں بلکہ خود عمران خان اپنے آپ کو جیل میں بند کروا کر دم لیں گے۔

مصنف کے بارے میں