سرحد پار سے کشمیری نوجوانوں کو بھڑکایا جاتا ہے،مقبوضہ کشمیر کے پولیس سربراہ کا الزام

سرحد پار سے کشمیری نوجوانوں کو بھڑکایا جاتا ہے،مقبوضہ کشمیر کے پولیس سربراہ کا الزام

سرینگر: مقبوضہ کشمیر کے پولیس کے سربراہ ایس پی وید نے الزام لگایا ہے کہ سرحد پار سے سوشل میڈیا کے ذریعے اشتعال دلانے کے سبب کشمیری نوجوان بہک رہے ہیں،کچھ عناصر ہیں جنھیں سرحد پار سے بھڑکایا جاتا ہے۔ایس پی وید نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہ پاکستان میں واقع کچھ ایجنسیاں وہی حربے استعمال کر رہی ہیں جو نام نہاد دولت اسلامیہ استعمال کرتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ دولت اسلامیہ کا کشمیر میں اثر نہیں ہے لیکن پڑوس کی کچھ ایجنسیاں ان کے طریقہ کار کا استعمال کر رہی ہیں اور اسی سے مشتعل ہو کر یہ بچے ہتھیار اٹھا رہے ہیں۔

کیا بھارتی حکومت کے پاس سرحد پار سے سوشل میڈیا سے بھیجے جانے والے اشتعال انگیز ویڈیو اور میسجز کا کوئی جواب ہے؟وید نے کہا کہ انتظامیہ اس ضمن میں بعض ٹھوس اقدام کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ کشیدگی کے وقت انٹرنیٹ کی سہولیات بند کرنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ پاکستان کی طرف سے سوشل میڈیا کے ذریعے اکسانے کی کوششوں کو روکا جائے۔

ریاستی پولیس کے سربراہ نے ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی بھی بات کی جو اس پروپیگنڈے کو وادی میں فروغ دیتے ہیں یا جو اس سے متاثر ہوتے ہیں۔پولیس سربراہ کا کہنا ہے کہ 90کی دہائی کے مقابلے میں آج کشمیر میں مبینہ انتہا پسندی میں بہت زیادہ تبدیلیاں نہیں آئی ہیں۔

اس زمانے میں پاکستان کشمیر کے شدت پسندوں کی کھل کر مدد کرتا تھا لیکن آج وہ ایجنسیوں کے ذریعے اور دوسرے اداروں کے ذریعے ایسا کرتا ہے جنھیں نان سٹیٹ ایکٹر کہتے ہیں۔ لیکن سب کچھ وہیں سے ہوتا ہے۔پاکستان شدت پسندوں کی براہ راست مدد سے انکار کرتا ہے۔ مگر پاکستان کشمیر کی تحریک کی حمایت کو قبول ضرور کرتا ہے۔

بہت سے ممالک میں شدت پسندوں کو انتہا پسندی کے راستے سے ہٹا کر معاشرے کے مرکزی دھارے میں لانے کے پروگرام چلائے جاتے ہیں جن میں برطانیہ، امریکہ، سعودی عرب اور مصر جیسے ممالک شامل ہیں۔ کیا کشمیر میں ایسا کوئی پروگرام شروع کیا گیا ہے؟پولیس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جس سطح پر ہونا چاہیے ویسا نہیں ہو رہا ہے ۔

چھوٹی چھوٹی کوششیں ہو رہی ہیں۔ کچھ این جی اوز سرگرم ہیں۔ کچھ سرکاری ادارے کر رہے ہیں، لیکن جس سطح کا ہونا چاہیے تسلی بخش طور پر ویسا نہیں ہے۔ایس پی وید نے کہا کہ کہ اگر شدت پسند نوجوان شدت پسندی کا راستہ چھوڑ دیں اور قومی دھارے میں شامل ہونا چاہیں تو وہ ان کا استقبال کریں گے۔لیکن نوجوان شدت پسند اور ان کے حامی اس تجویز کو نظرانداز کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال برہان کی موت کے بعد بھڑکنے والے پرتشدد واقعات میں سکیورٹی فورسز نے معصوم شہریوں کا قتل کیا ہے اور وہ اس زیادتی کو بھول نہیں سکتے ہیں۔