پرتشدد۔۔بل

Ali Imran Junior, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

دوستو،چند روز قبل قومی اسمبلی نے گھریلو تشدد کا بل منظور کیا اور اس کو مزید بحث کے لئے سینیٹ بھیج دیا۔ اسی دوران سوشل میڈیا پر شور مچا کہ یہ بل انتہائی متنازع ہے کیونکہ یہ ہمارے خاندانی نظام کو برباد کر دے گا۔پھر ہوا یوں کہ یہ بل سینیٹ سے بھی پاس ہوگیا۔۔ جس کے موٹے موٹے نکات یہ ہیں کہ۔۔والدین کا اپنے بچوں کی پرائیویسی، آزادی میں حائل ہونا جرم ہوگا۔۔اولاد کے بارے میں ناگوار بات کرنا / شک کا اظہار کرنا بھی جرم ہو گا۔۔معاشی تشدد کا لفظ استعمال ہوا ہے، یعنی کسی بھی قسم کے اختلاف، نافرمانی،کسی بھی وجہ سے بچے کا خرچہ کم یا بند نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو یہ جرم ہوگا، اس پر سزا ملے گی۔۔جذباتی / نفسیاتی اور زبانی  ہراسمنٹ کی اصطلاحات متعارف کرائی گئیں ہیں، یعنی کسی بھی بات کو ہراسمنٹ قرار دے دیں۔۔ خاوند کا دوسری شادی کا کہنا، خواہش کا اظہار کرنا جرم ہو گا، اسے گھریلو تشدد قرار دیا گیا ہے۔۔طلاق کی بات کرنا بھی جرم، سزا ہو گی، اسی طرح کوئی غصے والی بات، اونچی آواز میں بولنا، کوئی بھی ایسا جملہ جو کہ جذباتی، نفسیاتی یا زبانی اذیت کا باعث بنے وہ جرم تصور ہو گا۔۔ اگر باپ نے مندرجہ بالا جرائم میں سے کوئی ایک سرزد کیا تو بطور سزا وہ گھر نہیں جا سکتا، اسے اولاد سے محفوظ فاصلے پر رہنا ہوگا۔جی پی ایس کڑا پہننا ہو گا۔ کسی شیلٹر ہوم / یا تھانے میں سزا کاٹنی ہو گی۔۔کم سے کم 6 ماہ جبکہ 3 سال تک سزا سنائی جا سکتی ہے۔ ایک لاکھ تک جرمانہ بھی ہو گا، اگر جرمانہ نہ دیا تو مزید 3 سال قید۔۔اس میں ساتھ دینے والے کو بھی برابر کی قید ہو گی، یعنی ماں اور باپ دونوں مجرم بنیں گے۔
اس قانون میں بہت سے ابہام ہیں، جنہیں دور کرنا لازمی ہے۔ لیکن سمجھ نہیں آتا کہ جلدبازی میں اوٹ پٹانگ قسم کے قوانین کیوں نافذ کردیئے جاتے ہیں، اب اسی بل کو دیکھ لیں، مثال کے طور پر کوئی بچہ اپنے والد کے خلاف شکایت درج کراتا ہے،پھر آگے کیا ہوگا؟؟ بل میں یہ تو بتایا نہیں گیا کہ اس کیس کے اخرجات بچے کو کون ا دا کرے گا۔ کیا پولیس اتنی اچھی اور رشوت فری ہو چکی ہے کہ بچے کے کہنے پر والدکو گرفتار کر لے گی؟؟۔ چلو مان لیا ایسا ہو بھی جاتا ہے۔ والدگرفتار ہو جاتا ہے۔ والد صاحب اگر دیہاڑی دار ملازم اور گھر کا واحدکفیل ہے تو اس کے گرفتار ہو نے سے اس کے گھر کا نظام کون چلائے گا؟۔ اس کے باقی بچوں کی ضروریات زندگی کون پوری کرے گا؟؟ کچھ پتہ نہیں کہ ایسا کرنے سے مسائل کم ہونگے یا مزید بڑھیں گے۔ یہ قانون جن ممالک سے لایا گیا ہے وہاں پہلے سے ایک سسٹم موجود ہے۔اگرحکومت سنجیدہ ہوتی تو پہلے ان کے سسٹم کو یہاں لاتے پھر قانون لاگو کرتے۔ہمارے ہاں حالات و واقعات رہن سہن کچھ اور ہیں اور آپ ”فارن“ میں بنا بنایا قانون لا کر”پیسٹ“کر دیتے ہیں تو ایسا کرنے سے مسائل مزید  بڑھیں گے اور بگڑیں گے۔ پہلے اپنے عدالتی سسٹم کوٹھیک کریں پھر اس قسم کے قانون بنائیں۔ گھریلو تشدد کا قانون لانے سے قبل ان وجوہات پر توجہ دیں جن کی بنا پر گھریلو تشدد ہوتا ہے۔گھریلو تشدد کی تین بڑی وجوہات ہمیشہ سامنے آتی ہیں، بے روز گاری، مہنگائی، انصاف میں تاخیر۔جس دن یہ سب ٹھیک ہوں گے، گھریلو حالات خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ انسداد گھریلو تشدد بل مردوں پر بھی لاگو ہوگا، انسداد گھریلو تشدد بل تین صوبوں میں قانون بن چکا ہے، جس کے ساتھ بھی ظلم ہوگا اس کے تحفظ کے لیے یہ قانون ہے،نامور صحافی اوریا مقبول جان کے مطابق اب تو والدین اس قدر قانون کے شکنجے میں ہوں گے کہ اگر بیٹا آوارہ پھرتا ہے، نشہ استعمال کرتا ہے، کسی بھی اخلاقی جرم میں مبتلا ہوتا ہے تو والدین اس کو روک نہیں سکیں گے، اسی طرح بیٹی، بیٹے کی ”آزادی ”اور پرائیویسی میں دخل دینا قابل سزا جرم بنا دیا گیا ہے۔ڈومیسٹک وائلنس بل خاندانی نظام کو تباہ کرنے کا باعث ہے۔اس بل سے نہ صرف میاں بیوی کا رشتہ متاثر ہونے کا اندیشہ ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ماں باپ، بہن بھائی اور ہمارے بزرگ کے ساتھ تعلقات تباہ کرنے کے حوالے سے بھی دیوار کھڑی کی جارہی ہے۔ مطلب کسی بھی بزرگ یا بڑی بہن یا بھائی کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی کو برائی سے منع کرسکیں ورنہ انکے خلاف کاروائی کی جائے گی اور اس بنا پر انھیں گھر بدر کر دیا جائیگا۔قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ میاں بیوی کے رشتہ کو کس طرح پاکیزہ، پیار محبت اور عزت اور عصمت کا نمونہ ہونا چاہئے۔ والدین کا احترام کتنا ضروری ہے چاہے وہ دین اسلام سے دور ہی کیوں نہ ہوں۔لیکن اس بل میں روایتی اقدارپر لگام ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس گھریلو تشدد بل کو فی الحال ایک طرف رکھیں اور ایک دلچسپ واقعہ سنیں۔۔ایک افریقی شخص ایسے شہر میں پہنچا جہاں تقریباً شہر کی آبادی کا نظام قرض پر چلتا تھا،  وہ افریقی شخص ایک ہزار روپے ہوٹل کے کاؤنٹر پر رکھ کر بولا۔۔ میں جا رہا ہوں کمرہ پسند کرنے۔۔ہوٹل کے مالک نے وہ ایک ہزار روپے اٹھائے اور بھاگا گھی والے کے پاس،اسے ایک ہزار روپے دے کر گھی کا حساب چکادیا۔ گھی والا بھاگا،دودھ والے کے پاس اور اسی ایک ہزار کے نوٹ سے دودھ والے کا حساب کلوز کیا۔۔دودھ والا بھاگا چارے والے کے پاس اور چارے کا 1000 روپے کٹوا آیا۔چارے والا گیا اسی ہوٹل پر وہ وہاں ادھار میں کھانا کھاتا تھا اس نے 1000 روپے دے کر کھانے کا حساب چکتا کیا،اس سارے پراسس کے دوران وہ افریقی شخص واپس آیا، کاؤنٹر سے اپنے ایک ہزار روپے اٹھائے اور یہ کہتے ہوئے باہر کی راہ لی کہ۔۔ اسے کوئی کمرہ پسند نہیں آیا۔۔اب دیکھا جائے تو نہ کسی نے کچھ لیا،نہ کسی نے کچھ دیا،سب کا حساب چکتابھی ہوگیا۔۔گڑبڑ کہاں ہوئی؟؟اصل میں گڑبڑ کہیں نہیں ہوئی،بلکہ سبھی کی غلط فہمی ہے کہ روپے ہمارے ہیں جبکہ
 دنیا صرف اتنی ہی ہماری ہے جو اعمال صالحہ کی شکل میں صندوق میں ڈالی، پہن لیا اور کھا لیا باقی سب کچھ لواحقین کا ہے۔خالی ہاتھ آئے تھے، خالی ہاتھ ہی جانا ہوگا مگر اعمال کا صندوق ساتھ ہوگا۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔آج کی نوجوان نسل کھانے سے پہلے ہاتھ نہیں دھوتی، کھانا کھاکے لازمی ہاتھ دھوتی ہے تاکہ موبائل خراب نہ ہو۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔