شہباز شریف ڈاکٹرائن

Naveed Ch, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

طاقتور حلقوں سے ہر صورت بنا کر رکھنے کا شہباز شریف ڈاکٹرائن پٹ چکا، روندا جاچکا بلکہ ملیامیٹ ہو چکا۔بات کو سمجھنے کے لیے بہتر ہوگا کہ اس ڈاکٹرائن کو کسی ایک شخصیت سے منسوب کرنے کی بجائے ایک علامت کے طور پر دیکھا جائے۔ یہ کیفیت کم دبیش ہر سیاسی اور مذہبی جماعت پر مختلف مواقع پر طاری ہوتی رہتی ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر مالکان ملک و ملت سے مل ملا کر چلیں گے تو بہت آسانیاں ہوں گی اور بچت رہے گی۔ تاریخ نے  ثابت کیا ہے کہ یہ ایک خوش  فہمی سے زیادہ کچھ نہیں۔ ملک میں 73 سال سے جاری اقتدار کی کشمکش میں جس فریق کا پلہ واضح طور پر بھاری ہے۔ اس کے سامنے سب کو گھٹنے ٹیکنا پڑے ہیں یا پھر ایسے نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ مشکلات ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ پی ڈی ایم کے قیام کے بعد ایسا محسوس ہورہا تھا کہ شاید اس مرتبہ کچھ مختلف ہو۔ پیپلز پارٹی، اے این پی کو لے کر نکل گئی۔ اگرچہ یہ بہت بڑا دھچکا تھا مگر اپوزیشن اتحاد کو پھر بھی سنبھالا جاسکتا تھا مگر شاید ارادے ہی کمزور تھے۔ آج عالم یہ ہے کہ مسلم لیگ ن بھی“ اچھی پارٹی“ بن گئی ہے۔ اس کے واضح اثرات پی ڈی ایم پر مرتب ہوئے۔ سوات میں ہونے والے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کی آواز میں روایتی گھن گرج موجود نہ تھی۔ آخر ایسا کیوں نہ ہو۔ مولانا فضل الرحمن کو دو بڑی پارٹیوں کی جانب سے اوپر تلے بے وفائی اور یو ٹرن جیسے دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے بعد رفتار کم ہونا عقلی تقاضا ہے۔ پی ڈی ایم کی جانب سے شاید اب یہ سوچا جارہا ہے کہ سڑکوں پر آکر مطالبات پیش کرنے کی بجائے اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے اپنا حصہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ دیکھنا ہوگا کہ کیا اس بارمکمل طور پر پٹے ہوئے اس آزمود ہ نسخے کا کوئی موافق نتیجہ برآمد ہوتا ہے یا نہیں۔ سیاسی حوالے سے ایک اہم پیش رفت قومی سلامتی کے لیے پارلیمانی کمیٹی کا حالیہ اجلاس ہے جس میں اعلی فوجی حکام نے حکومت اور اپوزیشن کے منتخب نمائندوں کو بند کمرے کے اجلاس میں بریفنگ دی۔ عسکری حکام کی جانب سے باور کرایا گیا کہ خطے کے حالات اور درپیش چیلنجوں کے باعث ضروری ہوگیا ہے کہ تفرقے کی سیاست سے گریز کیا جائے۔ شرکا کو افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد کی صورتحال،مقبوضہ کشمیر کے حالات، چین کو محدود کرنے کے لیے امریکہ کی کوششوں کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔بتایا گیا کہ ڈرون حملوں کے لیے اڈوں کی فراہمی کی امریکی درخواست مسترد کردی گئی ہے۔اور یہ طے کیا گیا کہ ہم کسی تنازعہ میں فریق نہیں بنیں گے۔یہ بھی بتایا گیا کہ بیرونی طاقتوں نے دباؤ ڈالنا شروع کردیا ہے۔ 27 میں سے 26 نکات پر عمل درآمد کرنے کے باوجود پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نہیں نکالا گیا۔ بلوچستان میں بدامنی کے لیے پراکسیز کو متحرک کردیا ہے۔ جوہر ٹاؤن لاہور میں حافظ سعید کے مکان کے باہر دھماکہ بھارت نے کرایا۔یہ خدشات بھی ظاہر کیے گئے کہ آنے والے دنوں میں آئی ایم ایف دباؤبڑھا سکتا ہے۔ سی پیک کو ٹارگٹ کرنے اور غیرملکی سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کر کے بھگانے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ (ویسے یہ ستم ظریفی بھی ہمارے ہاں ہی ہوسکتی ہے کہ دھرنا دینے اور دلوانے والے کردار آج سی پیک کے محافظ ہونے کے دعوے کررہے ہیں) مزید یہ کہ دشمن ہمارے اندرونی فالٹ لائنز  سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکتا ہے۔شرکا سے کہا گیا کہ قومی امور پر اتفاق رائے ہونا ضروری ہے۔ سیاست صرف گورننس اور سیاسی معاملات پر ہونی چاہئے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے نام پر بلائے گئے اس اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے شریک ہونا ضروری نہیں سمجھا۔ اس حوالے سے دریافت کیا گیا تو کہا گیا کہ ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ حزب اختلاف والوں نے وزیر اعظم کی آمد پر اعتراض تھا۔ یہ دعویٰ یکسر بے بنیاد ثابت ہوا کہ اس سلسلے میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کوئی مطالبہ کیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کی غیر حاضری کو معمہ بنانے کی کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ ایک چینل پر ریاست کے“ منظور شدہ“ تجزیہ کار نے بتایا کہ چونکہ وزیر اعظم کو پہلے ہی سے سب باتوں کا علم تھا اس لیے وہ شریک نہیں ہوئے۔ اسی شام سندھ کے سابق وزیر اعلی ارباب غلام رحیم بنی گالہ آئے اور گلے میں پٹکا پہن پر مشرف بہ پی ٹی 
آئی ہوگئے۔ ملک کے سیاسی و صحافتی حلقوں کو رتی برابر شبہ نہیں کہ ارباب غلام رحیم کی پارٹی اور سیاسی مستقبل کا فیصلہ کہاں ہوتا ہے۔دیر تک چلنے والی اس اہم بریفنگ کے ابتدائی نکات بھی منظر عام پر نہیں آئے تھے کہ کسی بے صبرے نے رات کے دو بجے صابر تجزیہ کار کو جگا دیا۔ پھر ٹویٹ کی گئی کہ“قومی سلامتی کمیٹی میں اکثر اپوزیشن ارکان مخمصے کاشکار نظر آئے کہ زیادہ خوشامد کس کی کرنی ہے؟ اس لیے باری باری دونوں کی کرنا پڑی سب سے زیادہ جے یو آئی اور ن لیگ کے ارکان  نے پلکیں بچھائیں جو میڈیا میں سب سے زیادہ جنرل باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی پر تنقید کرتے ہیں، تصدیق کے لیے فوٹیج دیکھی جاسکتی ہے ”اگر کچھ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ ٹویٹ صحافتی  طور پر حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر لکھی گئی ہے تو اگلے روز یہ خوش فہمی دور ہوگئی۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے مذاق اڑاتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان اجلاس میں اس لیے نہیں گئے کہ خوشامد کرنے والوں کو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اس طرح اپوزیشن جماعتوں کو ایک بار پھر سے یہ بتا دیا گیا کہ کسی داخلی یا خارجی ضرورت کے تحت آپ کو  بریفنگ وغیرہ تو دی جاسکتی ہے مگر سیاسی حوالے سے کوئی گنجائش پیدا نہیں کی جائے گی۔ اسی لیے اگلے ہی دن وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید بھی یہ کہہ کر اپوزیشن کے جماعتوں لتے لیتے  رہے کہ ان کے رہنماوں کے رنگ پسٹن بیٹھ چکے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان کو ان سے کوئی خطرہ نہیں۔ یہ سیٹ اپ اگلے الیکشن جیت کر مزید پانچ سال حکومت کرے گا۔ پیپلز پارٹی سے تو گلہ کرنا ہی بے سود ہے۔ آصف زرداری اور بلاول جس قسم کی سیاست کر رہے ہیں اسکے نتائج تیزی سے سامنے آرہے ہیں۔بھرپور پلاننگ کے ساتھ اگلی بار سندھ سے پیپلز پارٹی کا پتہ کاٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ پی پی کی سیاست اسی انداز میں جاری رہی تو ممکن ہے اسے ایم کیو ایم اور ق لیگ کی طرح مرکز یا صوبے میں حکومتی جماعت کا اتحادی بننا پڑے۔ جو لوگ بلاول بھٹو زرداری کے ممکنہ دورہ امریکہ سے بڑی بڑی توقعات لگا رہے ہیں۔ شاید یہ بات فراموش کر بیٹھے ہیں کہ ہر معاملے میں جس احسن انداز میں امریکی مقاصد پورے ہو رہے ہیں اس کے پیش نظر امریکی حکام سیسہ پلائی دیوار کی طرح اس حکومتی ڈھانچے کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔بلاول ایک کیا دس دورے کرلیں۔ پیپلز پارٹی کے لیے کچھ تبدیل نہیں ہونے والا۔دوسری طرف شہباز شریف کی فدویانہ سیاست پر بھی آخر کتنا اعتراض کیا جاسکتا ہے۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ چھوٹا بھائی جو کچھ بھی کرتا ہے۔بڑے بھائی کے کہنے پر ہی کرتا ہے۔ اب شہباز شریف اپنے روایتی انداز میں سیاست کر رہے ہیں تو نواز شریف خاموش ہیں۔ اسے تائید کی سمجھا جائے گا۔ یہ سب کچھ اگر کسی مجبوری یا کمزوری کے سبب کیا جارہا ہے تب بھی تنقید کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔ اور اگر یہ اچھے دنوں کی امید پر کیا جارہا ہے تو محض دیوانے کا خواب ہے۔مسلم لیگ ن کو اقتدار سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کون کون سے پاپڑ نہیں بیلے گئے۔ کون کون سا ادارہ استعمال نہیں ہوا۔ ایسے میں کون پاگل ہوگا کہ مسلم لیگ ن کے لیے سیاسی میدان میں مساوی مواقع پیدا کرکے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لے۔ شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے بھی دنیا کے تقریباً تمام اہم ممالک کی شخصیات سے تعلقات قائم کیے۔ انتظامی امور اور ترقیاتی کاموں کے حوالے ان کی ایک مخصوص شہرت ہے۔کیا وہ بھول گئے کہ اورنج لائن ٹرین پراجیکٹ کیسے روکا گیا، پی کے ایل آئی کے حوالے سے کیا غدر مچایا گیا، میٹرو بس منصوبوں کے متعلق کیا پراپیگنڈہ کیا گیا۔ ویسے بھی ہمارا نظام سٹیٹس کو کا نظام ہے۔ جو تبدیلی لانے کی کوشش کرئے اسے تبدیل کردیا جاتا ہے۔ ن لیگ اور شہباز شریف کی اپنی مجبوریاں ہوں گی مگر مولانا فضل الرحمن کو زیادہ قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ جے یو آئی نے اپنی بے مثال سٹریٹ پاور کے ذریعے جب بھی مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کی تو اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں ادھر، ادھر ہو گئیں۔ سو بہت سارے تجزیہ کار اب یہ سمجھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن جو کر رہے ہیں ان کے لیے وہی مناسب ہے۔یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ پی ڈی ایم کمزور ہوتی رہی تو زندگی کے ہر شعبے پر دباؤ بڑھ جائے گا۔ اس وقت عدلیہ کے انتہائی قابل اور جرات مند جج زیر عتاب ہیں، ٹاپ میڈیا گروپ کا مالک انتقام کا نشانہ بن کر سات ماہ سے زیادہ قید کاٹ چکا۔ ٹاپ اینکرز نوکریوں سے نکلوا دئیے گئے۔ ملک کا ٹاپ سیاستدان اپنی جان بچانے کے لیے لندن میں بیٹھا ہے۔ جس طرح کے خطرات ہمیں اب بتائے جارہے ہیں پاکستان کو ایسے خطرات ہمیشہ لاحق رہے ہیں۔ ہم نے ملک ٹوٹتے دیکھا، سیاچن ہاتھ سے گیا، کارگل کامس ایڈونچر ہوا، بھارت مقبوضہ کشمیر کو نگل گیا۔یہ بات واضح ہے کہ جب تک ملک اندر سے ٹھیک نہیں ہوتا تب تک بیرونی حالات بھی خراب ہی رہیں گے۔ دشمنوں کو موقع ہی تب ملتا ہے جب ہم اپنے اندرونی خلفشار اور نا اتفاقی کے سبب انہیں مواقع فراہم کرتے ہیں۔آج افغانستان کا مسئلہ تیسری بار ایک عفریت بن کر ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ پہلے دو مواقع پر غیرمنتخب حکمرانوں نے فیصلے کیے جن پر آج خود ان کا ہی ادارہ تنقید کررہا ہے۔ اب بھی فیصلہ سازی کہیں اور ہو رہی ہے۔ اور ہمیں بتایا جارہا ہے کہ 1979 سے شروع ہونے والے افغان جہاد سے لے کر طالبان کے دوبارہ فتح مند ہونے تک نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اب افغان طالبان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان ایک ہی پیج پر ہیں۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے  خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں کسی کو بھی اپنا پٹھو بنانے سے باز رہے، تنازعہ جاری رہا تو پڑوسی ہونے کی وجہ سے بہت کچھ بلکہ افغانستان کو بھی کھو دے گا۔ اس وارننگ کے باوجود زمینی حقائق نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔ ہمیں صرف سرحدوں پر ہی نہیں اندرونی طور پر مسائل کا سامنا ہے۔ بارڈرز پر چوکس فوجی دستے تعینات کرنا لازمی ہے تو اندرون ملک سیاسی محاذ پر بھی الرٹ رہنا ناگزیر ہے۔ صرف شہباز شریف ڈاکٹرائن کے تحت سیاست کرنے کی گنجائش بہت کم ہوگئی ہے۔سیاسی جماعتوں نے جرات مندی کے ساتھ اپنا کردار ادا نہ کیا تو اس کے مضر اثرات ملک کے ہر ادارے اور عوام کو بھگتنا ہوں گے۔ موجودہ سیاسی لیڈر شپ اپنا کردار ادا کرنے میں فیل ہوگئی تو نئی قیادت نئے انداز میں سامنے آئے گی۔ سٹیٹس کو ہمیشہ کے لیے برقرار نہیں رہ سکتا۔