قومی معیشت: اعدادوشمار کیا کہتے ہیں؟

قومی معیشت: اعدادوشمار کیا کہتے ہیں؟

ہماری معیشت درست حالت میں نہیں ہے قومی معیشت مشکلات کا شکار ہے کچھ فیصلے بروقت نہ کرنے کے باعث معاشی معاملات میں بگاڑ کی بنیاد رکھی گئی تھی اور اب کچھ ضروری فیصلے کرنے کے باعث معاشی معاملات میں بگاڑ پیدا ہوا ہے ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کے ساتھ ساتھ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ یقینا پریشان کن ہے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30، 30 روپے کے دو اضافے حقیقتاً تباہ کن ہیں اس اضافے نے انفرادی معیشت کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے ایک عام آدمی کا ایسے معاشی حالات میں زندہ رہنا، صرف عنایت خداوندی کا ہی کرشمہ قرار دیا جا سکتا ہے، ہماری کثیر آبادی کم آمدنی والوں پر مشتمل ہے۔ بہت سے دیہاڑی دار ہیں، سرکاری ملازمین ہیں، اہل حرفہ ہیں، کاریگر ہیں، فلاحین ہیں، ان کے لئے حقیقتاً قیامت کا سماں پیدا ہو چکا ہے لیکن حکومت بالکل بے بس نظر آ رہی ہے چاہے وہ عمران خان کی سربراہی میں قائم ’’نالائق حکومت‘‘ ہو یا شہباز شریف کی سربراہی میں قائم ’’اتحادی حکومت‘‘ ہو، کسی کے بس میں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ شہباز شریف سے عوام کی امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ عوامی معاشی فلاح و بہبود کے لئے کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی تاریخ کے حامل ہیں وہ سردست معاشی صورتحال کو قابو میں لانے کے لئے دوڑدھوپ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ مارے مارے پھر بھی رہے ہیں لیکن معاملات پر ان کی گرفت کہیں نظر نہیں آ رہی ہے۔
سال 2021-22 میں وفاقی حکومت نے 8487 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا جس میں 3060 ارب روپے قرضوں پر سود کی ادائیگی، 1370 ارب روپے کے دفاعی اخراجات، کارسرکار چلانے کے لئے 479 ارب روپے اور پنشن کی ادائیگیوں کے لئے 480 ارب روپے مختص کئے گئے۔ دیگر اخراجات کو ملاجلا کر 8487 ارب روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا جبکہ خالص وصولیوں کا تخمینہ 4497 ارب لگایا گیا۔ ویسے مجموعی ٹیکس وصولیوںکا تخمینہ 5829 ارب روپے تھا صوبوں کو دے دلا کر وفاقی حکومت کے پاس باقی 4497 ارب روپے بچ رہنے کا اندازہ تھا گویا مجموعی خسارہ 3990 ارب روپے کا تھا۔ اس قدر وسیع خسارے کو کس طرح پورا کیا جانا تھا؟ درکار وسائل کہاں سے آنے تھے؟ وغیرہ وغیرہ کے والے سے کوئی طے کردہ پلاننگ کا ذکر پورا سال سننے میں نہیں آیاحکومت نے معاملات کو آئی ایم ایف، اے ڈی بی (ایشین ڈویلپمنٹ بینک)، لندن کلب، پیرس کلب، سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات، قطر وغیرہ سے قرض لے کر چلانے کی کوشش کی لیکن علاقائی اور عالمی پس منظر میں ہم بہتر طور پر آگے نہیں بڑھ سکے۔ عمران خان اپوزیشن اور مقتدر حلقوں کے ساتھ مستقلاً حالت جنگ میں رہے۔ ان کی حکومت اپنی کارکردگی بہتر بنانے اور معاملات کو درست سمت میں لے جانے کی کاوشیں کرنے کی بجائے، لڑائی جھگڑے اور گالم گلوچ میں مصروف رہی۔ قومی معیشت کو سدھارنے اور جاری رکھنے کے لئے درکار فیصلہ سازی میں مجرمانہ کوتاہی کی گئی۔ سٹیٹ بینک کو عالمی مالیاتی اداروں کی فرمائش پر ’’آزادی‘‘ دے کر قومی معیشت کے لئے شدید مشکلات پیدا کیں۔
ہماری مالی مشکلات کے حل کے لئے ہمارا مرکزی بینک ایک اہم حیثیت کا مالک تھا۔ نئے 
انتظامات کے تحت سٹیٹ بینک حکومت کو قرضے جاری نہیں کر سکتا اس لئے حکومت کو کمرشل بینکوں سے مارکیٹ ریٹس پر قرضے حاصل کرنا پڑ رہے ہیں، 13 فیصد یا اس سے ذرا کم یا زیادہ شرح سود پر قرضے لے کر قومی معیشت کو چلانا کسی طور بھی ممکن نہیں ہے لیکن حکومت کو خسارہ پورا کرنے کے لئے، کارسرکار جاری و ساری رکھنے کے لئے مارکیٹ شرح سود کرنا پڑ رہی ہے جس کے باعث آمدن و خرچ کا کھاتا بگڑتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ڈالر 200 کی نفسیات حد بھی کراس کر چکا ہے، پٹرول 210 روپے لٹر ہو چکا ہے۔ معاملات زر فی الحقیقت قابو سے باہر ہو چکے ہیں، بجٹ خسارہ ہو یا تجارتی خسارہ ہمارے کہنے سننے سے باہر ہو چکا ہے۔ ہم نے جاری مالی سال 2021-22 کے دوران برآمدات سے 24 ارب ڈالر کمائے جبکہ درآمدی بل 52 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے 28 ارب ڈالر کا سیدھا سیدھا تجارتی خسارہ ہے پر کیسے پورا ہو گا؟ انرجی سیکٹر کا گردشی قرضہ اپنی جگہ موجود ہے، ریاستی ملکیتی اداروں بشمول پی آئی اے، ریلوے، سٹیل ملز وغیرہ کو زندہ رکھنے کے لئے اربوں روپے کی ادائیگی بھی لازمی ہے۔ یہ ادارے بنیادی طور پر کمرشل بنیادوں پرکمائی کے لئے قائم کئے گئے تھے حیران کن بات ہے کہ انہیں صرف قائم رکنے کے لئے حکومت کو اربوں روپے سالانہ جھونکنے پڑتے ہیں۔ یہ سب کچھ کیسے چلے گا۔ تمام معاشی اشاریے خطرناک نظر آ رہے ہیں۔ سر دست ان سب معاملات سے نکلنے اور آزادی حاصل کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ہے حالات مایوس کن اور خوفناک لگ رہے ہیں۔
عمران خان اپنی شکست کے زخم چاٹ رہے ہیں وہ ہر ادارے کے خلاف زہرافشانی کر رہے ہیں۔ وہ شہباز شریف کی اتحادی حکومت کو ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیںاس حکومت کو ذرا برابر بھی سپورٹ کرنے والی شخصیات اور اداروں کو بھی طعن و تشنیع کا نشانہ بنا رہے ہیں سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے وہ ریاست پاکستان کے خلاف زبان درازی کر رہے ہیں۔ انہوںنے تو اپنے ملک پر ہی ایٹم بم گرانے، ایٹمی اثاثوں کی حوالگی اور ملک کے تین ٹکڑے ہونے کی پیشگوئی کرتے ہوئے بھی ذرا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ انہوں نے بطور وزیراعظم کہا تھا کہ وہ حکومت سے باہر ہو کر ’’زیادہ خطرناک‘‘ ہو جائیں گے۔ انہوں نے اپنے اس بیان کو حرف بحرف سچ کرنے میں کچھ کسر نہیں اٹھا رکی ہے۔ وہ 10 اپریل 2022 کو پارلیمان سے شکست کھانے کے بعد سے حقیقتاً خودکش بمبار بنے ہوئے ہیں۔ وہ ہر شے کو ملیامیٹ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اپنے عزائم کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو تہس نہس کرنے کی کاوشیں کر رہے ہیں۔ بیان کردہ مخدوش ملکی حالات میں عمران خان کی حرکات و سکنات کسی طور بھی پاکستان کے لئے اچھی اور خوشگوار نہیں ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف وسیع البنیاد ڈائیلاگ کا کہہ چکے ہیں تاکہ مل جل کر ملک کو جاری بحران سے نکالا جا سکے لیکن عمران خان نے اس تجویز کو یکسر مسترد کر دیا ہے وہ فوری انتخابات کے علاوہ کسی اور ایشو پر بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور ایسے لگ رہا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عام انتخابات میں وہ کلین سویپ کر کے اقتدار میں آ جائیں گے حالانکہ یہ قطعاً ممکن نہیں لگ رہا ہے وہ اپنی ساڑھے تین سالہ کارکردگی کے ذریعے اپنی لیڈرشپ کی ناکامی کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ 44 ماہی دور اقتدار میں انہوں نے جس نالائقی اور نااہلی کا مظاہرہ کیا ہے اس کے پیش نظر ان کا آئندہ انتخابات میں دوبارہ جیت کر واپس اقتدار میں آنا ممکن نہیں لگ رہا ہے اور شاید انہیں بھی یہ حقیقت معلوم ہو لیکن وہ اس کا اقرار نہیں کریں گے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان کا فوری الیکشن کا مطالبہ پورا ہونا ممکن نہیں ہے، زمینی حقائق بھی اس سمت میں اشارہ کر رہے ہیںاور انتظامی معاملات بھی الیکشنوں کا فوری انعقاد ناممکن بتارہے ہیں اس کے باوجود وہ ’’انکار‘‘ اور ’’نہ مانوں‘‘ کی پالیسی کے تحت فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ویسے انہیں اپنے فالوورز کو مصروف اور متحرک رکھنے کے لئے کچھ نہ کچھ تو کہنا ہے کسی نہ کسی مطالبے کی پذیرائی میں مصروف رکھنا ہے اس لئے وہ یہ سب کچھ کر رہے ہیں اس میں چاہے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا رہے وہ اپنی نااہلیوں کے باعث پہلے بھی ملک کو نقصان پہنچا چکے ہیں اور اب بھی ایسا ہی کر رہے ہیں جبکہ اتحادی حکومت ملکی معاملات کو سنبھالنے اور بہتر بنانے کی کاوشوں میں مصروف ہے اور اگست 2023 تک مصروف رہنے کا ارادہ کئے ہوئے ہے۔ الیکشن مقررہ مدت کے بعد ہی ہوں گے۔ واللہ العلم بالصواب۔

مصنف کے بارے میں