گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے

گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے

پاکستان کے عوام کے مزاج اور زندگی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تیزی سے بڑھتے عدم برداشت، بیروزگاری اور ہر کاروبار میں مندی نے ویسے ہی تلخی پیدا کر دی ہے باقی کی رہی سہی کسر ہمارے سیاسی قائدین کی شعلہ بیانیاں پورا کر رہی ہیں۔ بات چیت کی فضا اور گنجائش دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے۔ سیاسی اختلافات اب ذاتی اختلافات میں تبدیل ہو کر خانہ جنگی کی طرف چل پڑے ہیں، جس کا نتیجہ قتل و غارت ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی، مذہبی اور نجی اختلافات میں تشدد اور گالم گلوچ کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ ہمارے ملک کی سیاست اب عدم برداشت کا شکار ہو چکی ہے۔ سیاسی انتہا پسندی اور عدم برداشت اب گھروں، خاندانوں اور گلی محلوں تک پہنچ چکی ہے۔ سیاسی نفرتوں میں اضافہ اب اس قدر بڑھ چکا ہے کہ حالیہ دنوں مسجد میں سیاسی کارکنوں کے حملے کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔ یہاں اب معمولی سیاسی اختلاف پر لوگ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں۔ باہمی احترام اور تہذیب اب ہمارے لیے قصہ پارینہ بن گئے ہیں۔ آئے روز سیاسی اختلافات اور بحث کے نتیجے میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں قیمتی انسانی جانوں کے زیاں کی خبریں ٹی وی اور اخبارات کی سرخیوں کا حصہ ہوتی ہیں۔ اب تک کئی گھروں میں صف ماتم بچھ چکی مگر سیاست جوں کی توں چل رہی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں عدم برداشت کا بڑھتا ہوا رجحان انتہائی افسوس ناک ہے۔ عدم برداشت ایک ایسا منفی معاشرتی اور نفسیاتی رویہ ہے جس کی نشو و نما کسی بھی معاشرے میں جاری عدم مساوات، لا قانونیت، کوتاہ 
نظری اور عدم استحکام کا سبب بن جاتی ہیں۔ تاریخ اُٹھا کر دیکھی جائے تو ہر دور میں ہی مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہوتی رہی ہیں یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ جتنی بھی قومیں اب تک تباہ ہوئیں وہ کسی بیرونی سازش کا مقابلہ نہ کر سکنے کے نتیجے میں نہیں بلکہ اندرونی معاملات میں کمزوری کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئیں۔ ہر قسم کی بیرونی سازش کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے ضروری قوم، افواج، اداروں اور سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے۔۔۔
ہر سازش کی پہلی چال تقسیم ہوتی ہے، آج ہماری قوم بھی تقریباً اسی سازش کا شکار ہو چکی ہے۔ اب صرف وقت رہتے اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس سازش میں کون کیا کردار ادا کر رہا ہے۔ مسلم اور غیر مسلم ممالک میں ہر الیکشن کے بعد ایک ہی صدا بلند ہوتی ہے، غیر ملکی سازش ہوئی ہے، دھاندلی ہوئی ہے، عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ یہاں تک کہ سُپر پاور ریاستیں بھی یہی رونے روتی نظر آتی ہیں۔ دوسرا دھرنوں کی سیاست نے ملک کی معیشت اور عوام کی فلاح و بہبود کا جنازہ نکال دیا ہے۔ بیرونی اور غیر جمہوری قوتیں کوئی اور مقصد تو حاصل نہیں کر پاتی ہیں، لیکن اپنی سازشوں سے ملک کو انتشار کا شکار اور قومی ترقی کو داؤ پر لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔ اس وقت پاکستان کو انتہائی مشکل اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ حکومت کسی کی میراث نہیں ہے، لیکن اسے ہی ملنی چاہیے جو اس کا بہتر مستحق ہو، جو عوام کی خوش حالی اور ملکی معیشت کی ترقی لانے کا سب سے زیادہ اہل ہو۔ تمام اچھی ٹیمیں صاف کھیل کر گول کر کے میچ جیتا کرتی ہیں، اپنے حریف کو امپائر سے ریڈ کارڈ دکھا کر گراؤنڈ سے باہر بھیج کر نہیں۔ پاکستان میں تباہی تیزی سے اپنے پر پھیلا رہی ہے، عوام اور حکمران ایک ہی رنگ میں رنگے جا رہے ہیں۔ بد زبانی، بد تہذیبی، کردار کشی ہر وہ حربہ جس سے میڈیا میں مخالف کی جگ ہنسائی ہوتی ہو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ سوشل میڈیا اس قدر بے لگام ہو چکا ہے کہ اب اس پر کسی کا کنٹرول نہیں ہے۔ یہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دجالی فتنے کا ایک پہلو سوشل میڈیا بھی ہے۔ ہمارے سیاست دان اپنی شعلہ بیانی سے عوام کو آگ کے دریا میں دھکیلنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، اب تو باقاعدہ جلسے، جلوس اور مارچ کو خونی مارچ کا نام دیا جاتا ہے۔۔ ماہِ جون ہمیشہ تپتے سورج کی وجہ سے اہم رہا ہے اندیشہ ہے کہ اس بار انتشار کی دہکتی آگ کی وجہ سے سرخیوں میں رہے گا۔ ہمیں وقت رہتے سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر یہ معاملہ اس طرف چل پڑا تو کہیں شام، لبنان اور عراق جیسے ممالک کی مثالوں میں ہمارا نام بھی شامل نا ہو جائے۔ ضرورتِ وقت ہے کہ آگے بڑھ کر اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے رہتے ہوئے ملک کی سالمیت کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ پاکستان کے ادارے ہمارے اپنے ہیں، ان کی حفاظت اور عزت میں ہی ہماری عزت ہے۔ سیاست کو سیاست تک ہی محدود کر کے بیرونی سازشوں کے تمام راستے بند کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ملک دشمن چاروں طرف سے گھات لگائے ہوئے ہیں، جبکہ ہماری نوجوان نسل غیر ضروری سیاسی بحث کا شکار ہو چکی ہے، جنہیں وقت رہتے ہی بہتر راستہ دکھانے کی اشد ضرورت ہے۔ وقت بہت تیزی سے ان دیکھے انتشار کی طرف بڑھ رہا ہے، یہ بات اب مہینوں یا سال کی نہیں رہی بلکہ دنوں میں انتشار اور خانہ جنگی کی یہ آگ پھیل جائے گی۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔۔۔ آمین

مصنف کے بارے میں