سیاست کی خوفناک سمت۔۔ کوئی نہیں بچے گا

سیاست کی خوفناک سمت۔۔ کوئی نہیں بچے گا

پناہ گاہوں، لنگر خانوں، صحت سہولت کارڈ، احساس پروگرام اور شوکت خانم جیسے تاریخی ہسپتال کی تعمیر سابق وزیراعظم عمران خان کے یقینی طور پر ایسے بڑے کارنامے ہونگے کہ جو کپتان کے ووٹروں اور سپورٹروں کے ساتھ عام لوگوں کو بھی کافی عرصے تک یاد رہیں گے لیکن اس ملک میں بد تہذیبی، بد اخلاقی اور گالم گلوچ کی سیاست کو پروان چڑھا کر کپتان نے اس ملک اور قوم پر اپنی طرف سے جو عظیم احسان کیا ہے یہی احسان ایک ایسا کارنامہ ہے کہ جو کپتان کے ان تمام چھوٹے بڑے کارناموں پر بھاری بہت بھاری ہے۔ لنگر خانوں و پناہ گاہوں سے شوکت خانم ہسپتال تک کے کارنامے شاید کہ کبھی نہ کبھی لوگ بھول جائیں لیکن آپ یقین کریں بیگانے کیا کپتان کے اپنے بھی اس عظیم احسان و کارنامے کو اب کبھی بھول نہیں پائیں گے۔ اس ملک کی سیاست میں بداخلاقی اور بدتہذیبی کے اکا دکا جراثیم پہلے بھی تھے۔ ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ ہماری سیاست پہلے بدتہذیبی، بداخلاقی اور گالم گلوچ سے بالکل پاک تھی پہلے بھی اس طرح کے مسخرے کچھ کم نہ تھے لیکن کپتان نے ان مسخروں کو بھی مات دے کر بدتہذیبی، بداخلاقی اور گالم گلوچ کے وائرس کو جس طرح پورے ملک میں پھیلا دیا ہے وہ خطرناک بہت ہی خطرناک ہے۔ آج اس ملک میں وہ کونسا گھر ہے جو اس وائرس سے متاثر نہیں۔ آپ کراچی سے گلگت اور کشمیر سے چترال تک دیکھیں آپ کو سیاست کے میدان میں بداخلاقی اور گالم گلوچ کا یہ وائرس گھر گھر تک پھیلا ہوا نظر آئے گا۔ پہلے اس وائرس کے صرف سیاسی مخالفین نشانہ تھے لیکن آج اس عمرانی وائرس سے ملک کا کوئی بھی باعزت اور شریف شہری محفوظ نہیں۔ اس ملک میں پہلے بھی لوگ سیاست سیاست کھیلتے تھے۔ شہر کیا، گاؤں اور دیہات میں بھی گھروں اور حجروں کے اندر سیاسی باتیں، بحث اور مباحثے ہوتے تھے لیکن اب شہروں کے ساتھ گاؤں اور دیہات بھی اس عمرانی وائرس سے محفوظ نہیں۔ ہماری طرح اب دور دراز کے دیہات اور گاؤں میں بھی لوگ غلطی سے سیاست کا نام نہیں لیتے کیونکہ ان کو بھی پتہ ہے کہ سیاست کا نام سنتے یا ذکر چھیڑتے ہی کپتان کے تربیت یافتہ کھلاڑی شہد کی مکھیوں کی طرح بھن بھن شروع کر کے اس طرح لوگوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں کہ ایک شریف اور باعزت شخص کے لیے پھر ان سے جان چھڑانا آسان 
نہیں ہوتا۔ سیاست کے نام پر شرفاء کی پگڑیاں اچھالنا اور کپتان و پی ٹی آئی کی مخالفت کرنے والوں کو ماں بہن کی گالیوں سے نوازنا یہ جیسے کپتان کے ان کھلاڑیوں کے ہاں کوئی بہت بڑے ثواب کے کام ہوں۔ وقت کا وزیراعظم ہونے کے باوجود جس طرح کپتان کے پاس سیاسی مخالفین کے لیے چور، ڈاکو، مافیا، ڈیزل، شوباز اور چوہوں کے علاوہ کوئی اور الفاظ نہیں تھے اسی طرح اب کپتان کے ان کھلاڑیوں کے پاس بھی مخالفین کے لیے بے ایمان، چور، ڈاکو اور غدار کے سوا اور کوئی الفاظ نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ایسا لگ رہا ہے کہ اس وقت ملک میں کپتان کے کھلاڑیوں اور تحریک انصاف کے کارکنوں سے زیادہ ایمان دار، بہادر، شریف، تعلیم یافتہ، خوش اخلاق اور نظریے پر جان دینے و قربان کرنے والے اور کوئی نہ ہوں۔ یعنی اس ملک میں فقط یہی کھلاڑی ایماندار ہوں باقی سب کے سب چور، ڈاکو اور بے ایمان۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے اس ملک میں گالم گلوچ، بداخلاقی اور بدتہذیبی کا جو کلچر متعارف کرایا ہے وہ کلچر اب گھر گھر تک پہنچ چکا ہے۔ اپنا ہے یا کوئی بیگانہ، کوئی بھی شخص اب اس کلچر سے محفوظ نہیں۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ ہماری دوسری پارٹیوں اور جماعتوں کے کارکن بھی اب اس کلچر سے متاثر دکھائی دے رہے ہیں۔ سیاست کے میدان میں ہمیشہ صابرین و شاکرین میں نام پانے والے مولانا فضل الرحمن کے وہ کارکن جن میں کبھی اپنے قائد کی صابرین والی جھلک دکھائی دیا کرتی تھی۔ جو کسی بڑے سیاسی مخالف کی مخالفت پر بھی اپنے قائدکی طرح کبھی اف تک نہیں کہتے تھے پی ٹی آئی کارکنوں کی دیکھا دیکھی اب انہوں نے بھی زبان چلانے کے ساتھ سیاسی مخالفین پر جملے کسنے، تیر برسانے اور گالم گلوچ کے نشتر چلانا شروع کر دیئے ہیں۔ سیاسی کارکنوں کا یہ رویہ اور یہ حالت دیکھ کر سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم آخر کس طرف جا رہے ہیں۔ ڈی چوک، سوشل میڈیا، انٹرنیٹ اور ٹچ موبائل کے ذریعے کپتان سے سیاسی تربیت حاصل کرنے والے کھلاڑیوں نے جو روٹ اور سیاسی ٹرین پکڑی ہے واللہ یہ ٹرین منزل کی طرف نہیں جا رہی۔ ہماری منزل شرافت ہے خباثت، غنڈہ گردی، بے حیائی، فحاشی اور بے غیرتی نہیں۔ ہمارے پیارے حبیب حضرت محمدﷺ نے سب سے زیادہ زور اعلیٰ اخلاق پر دیا۔ بداخلاقی، بدتہذیبی، گالم گلوچ اور بدتمیزی کی آگ اس دنیا میں بھی خطرناک ہے اور آخرت میں بھی۔ بظاہر چھوٹی اور معمولی نظر آنے والی یہ ہلکی سی زبان جب روٹ اور پٹڑی سے اتر جائے تو پھر اس کا کیا انجام ہوتا ہے۔ یہ آج بھی چیخنے، چلانے، رونے دھونے والے عمران خان کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ کپتان اپنی زبان سنبھال کے بات کرتے تو آج اس کا یہ انجام نہ ہوتا۔ پی ڈی ایم، متحدہ اپوزیشن اور امریکی سازش یہ تو محض باتیں ہیں، کپتان کے خلاف اصل سازش تواس کی اپنی اور ان کے کھلاڑیوں کی لمبی زبان نے کی۔ ڈاکو، گنجا، شوباز، ڈیزل، مداری اور تین چوہے یہ والی زبان اور یہ والے الفاظ ہی تو کپتان کو لے ڈوبے۔ کپتان اور کھلاڑی شہباز، زرداری اور مولانا جیسے اچھے بھلے انسانوں کو چوہے اور انہیں برے ناموں و القابات سے نہ پکارتے تو شائد وہ انہیں بھی اس طرح کے شطر مرغ بننے پر مجبور نہ کرتے۔ کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن۔۔ کچھ اسانوں مرن دا شوق وی سی۔ شہر سیاست کے لوگ ظالم تھے یا نہیں لیکن کپتان اور کپتان کے کھلاڑیوں کو سیاسی طور پر مرنے کا شوق بہت شوق تھا۔ کپتان اور کھلاڑی اسی رویے اور اسی لب و لہجے پر آسمان سے زمین پر گرے جو رویہ اور جو لب و لہجہ آج کل مولانا، ان سیاسی مفتیوں اور کارکنوں نے اپنایا ہوا ہے۔ سیاست پھٹے دلوں کو جوڑنے کے ساتھ صبر، برداشت، مفاہمت، اعلیٰ اخلاق، امن اور بھائی چارے کا نام ہے۔ یہ کوئی سیاست اور کوئی جمہوریت نہیں کہ کوئی آپ یا آپ کے قائد، لیڈر یا امام کی مخالفت کریں تو آپ بداخلاقی، بدتہذیبی، گالم گلوچ، بدتمیزی یا اس کو مارنے پر اتر آئیں۔ اس آمرانہ اور جاہلانہ سوچ کی اس ملک اور ہماری سیاست میں کوئی جگہ نہیں۔ کپتان کے کھلاڑیوں اور مولانا کے مریدوں سمیت کچھ دیگر سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں نے اس وقت ملک میں گالم گلوچ و بداخلاقی والی جو ٹرین پکڑی ہوئی ہے وہ نہ صر ف ہماری سیاست اور جمہوریت بلکہ اس ملک کی بقا و سلامتی کے لیے بھی خطرناک ہے۔ سیاسی دلوں میں گالم گلوچ، عداوت، عدم برداشت، انتقام اور رنجشوں کی یہ آگ اگر اسی طرح بھڑکتی رہی تو پھر مولانا سے کپتان اور میاں سے زرداری تک اس کے شعلوں سے کوئی بھی نہیں بچے گا۔ اس لیے سیاسی پیر اور مرید دوسروں کو برا بھلا کہنے اور گالیاں دینے کے بجائے اپنے اپنے آستانوں کی فکر شروع کر دیں کیونکہ عدم برداشت، بداخلاقی، گالم گلوچ اور بدتمیزی کی کوکھ سے جنم لینے والی آگ کپتان کے بعد اب ان تک بھی پہنچ سکتی ہے۔

مصنف کے بارے میں