شہباز کرے پرواز

شہباز کرے پرواز

عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے فارغ کیے گئے سابق وزیر اعظم عمران خان کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ وہ نکالے جا چکے ہیں۔ جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا ہے یہ خیال ان کے لیے سوہان روح بنتا جا رہا ہے۔ خان صاحب جتنی جلدی اس حقیقت کو تسلیم کر لیں گے یہ ان کی سیاست اور پارٹی کے لیے بہتر ہو گا۔ عید کے بعد حکومت اور اداروں کو دباؤ میں لانے کے لیے عمران خان نے خیبر پختونخوا اور پنجاب میں جلسوں کا آغاز میانوالی سے کر دیا ہے۔ عمران خان صاحب کو اقتدار سے علیحدگی اس قدر بُری لگی ہے کہ وہ خراب ملکی معاشی حالات جن کے وہ ذمہ دار ہیں اور سخت موسم کی پروا کیے بغیر اسلام آباد پر چڑھائی کے لیے بضد ہیں۔ ان جلسوں اور ریلیوں کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی تیاری بتایا جا رہا ہے۔ عمران خان جلسے کرنے اور مجمع لگانے کے ماہر ہیں۔ لیکن اصل امتحان تو اس وقت ہو گا جب سخت گرمی میں اسلام آباد کی کال دی جائے گی۔ اس وقت کتنے لوگ اپنا کام کاج اور گھر کی ٹھنڈک چھوڑ کر اسلام آباد کی تپتی سڑکوں پر خوار ہونے کے لیے جائیں گے؟ دھرنا دینے کی صورت میں رکنے کا حوصلہ کریں گے؟ اس بار امپائر کی انگلی پہلے ہی اٹھ چکی ہے۔ عمران خان صاحب کو کلین بولڈ قرار دیا گیا ہے۔ لیکن وہ آؤٹ نہیں مان رہے۔ 2014 میں عمران خان کا لانگ مارچ آغاز میں ہی بُری طرح ناکام ہو جاتا اگر طاہر القادری کے پُرعزم ورکر کچھ عرصہ نہ رکے رہتے۔ طاہر القادری کی اس لانگ مارچ سے علیحدگی کے بعد عمران خان کے لانگ مارچ کی حقیقت سب کے سامنے آ گئی تھی۔ بس شام کی ایک تفریح گاہ یا ڈبیٹنگ کلب سے زیادہ حیثیت نہیں تھی۔ اس وقت بھی عمران خان نے ایک ایسے بیانیے پر قوم کا وقت ضائع کیا جس کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ چار حلقے، 35 پنکچر جیسے الزامات پر بعد ازاں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب بھی خط، مداخلت اور سازش کا بیانیہ اپنی ساڑھے تین برس کی بُری پرفارمنس کو چھپانے اور اداروں کو کمزور کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ اوور سیز پاکستانیوں کو اپنے ملک کے خلاف مظاہروں پر ابھارنا کہاں کی حب الوطنی ہے۔ اس وقت قوم کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ ہم جس معاشی گرداب میں پھنسے ہیں اس سے 
نکلنا آسان نہیں ہو گا۔ شاید قدرت کو اس قوم پر رحم آ گیا ہے کہ شہباز شریف کو حکومت مل گئی ہے۔ شہباز اور ان کی ٹیم اس مشکل وقت میں ملک کو اس بھنور سے نکالنے کی کوششوں میں جُت گئے ہیں۔ لیکن عمران خان کا جنون اقتدار مئی کی چلچلاتی دھوپ میں اپنے ورکر کو مشکل میں ڈال رہا ہے۔ لانگ مارچ کے ذریعے عمران خان حکومت اور اداروں پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں کہ وہ نومبر سے پہلے الیکشن کا اعلان کریں۔ انھیں شاید یہ یقین ہے یا وہ قسمت آزمانا چاہتے ہیں کہ وہ الیکشن بھاری اکثریت سے جیت جائیں گے۔ اس دوران ملک کو کیا نقصان ہو گا۔ ان کے دور میں 2 کروڑ سے زائد افراد غربت کی سطح سے نیچے جا چکے ہیں۔ یہ تعداد اس وقت 7کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔ مزید اس ملک کو کتنا نقصان پہنچانا باقی ہے۔ ابھی تک یہ بات عمران خان کے ورکر کی سمجھ سے بھی بالاتر ہے کہ وہ کس طرح حکومت کو جلد نئے الیکشن کے لیے مجبور کر سکیں گے۔ حالانکہ یہ وہی عمران خان ہیں جو پوری سپورٹ کے باوجود بھی 4 حلقوں کا دوبارہ الیکشن نہیں کرا سکے تھے۔ بقول وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف، عمران خان ایک سیاسی خود کش بمبار بن چکے ہیں۔ جو اقتدار میں اپنی عدم موجودگی کی صورت میں اس جمہوری سیاسی نظام کو تباہ کر دینا چاہتے ہیں۔ عمران خان، شہباز شریف کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ وزیراعظم شہباز شریف کی عملیت پسندی اور بہترین کارکردگی کے ریکارڈ سے خائف ہیں۔ انھیں یہ معلوم ہے شہباز شریف ڈیڑھ برس کے عرصے میں وہ کر دکھائیں گے جو وہ ساڑھے تین برس میں نہیں کر سکے۔ گو کہ معاشی، داخلی اور سفارتی چیلنجز بہت زیادہ ہیں۔ عمران خان اس وقت جس سازشی بیانیے کی ترویج کر رہے ہیں اسے زیادہ دیر تک عوامی پذیرائی نہیں ملے گی۔ عمران خان روایتی امریکہ مخالف نعرے لگا کر وقتی طور پر اپنے ووٹر کو جذباتی کر چکے ہیں۔ انھیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ وہ اس وقت مظلومیت کا کارڈ کھیل کر اپنے ناراض ووٹر کو پھر مائل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ان کا دوسرا مقصد موجودہ حکومت کی توجہ تقسیم کرنا ہے۔ عمران خان کبھی نہیں چاہیں گے کہ موجودہ حکومت پرفارم کرے۔ مسلسل ریلیاں اور جلسے اسی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ تاکہ عوام، میڈیا اور حکومت کو الجھا کر رکھا جائے۔ اتنا شور مچایا جائے کہ جھوٹ پر سچ کا گمان ہونے لگے۔ پچھلے ساڑھے تین برس میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے، پنجاب کو ناتجربہ کار عثمان بزدار اور فرح گوگی کے حوالے کیا گیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اس صوبے کو شہباز سپیڈ پر چلنے کی سزا دی گئی ہے۔ عون چودھری، علیم خان اور جہانگیر ترین کے انکشافات اس سارے کھیل کی تائید کر رہے ہیں۔ کھوجی کھوج لگا رہے ہیں۔ سارے کھرے ایک ہی جگہ جا کر نکل رہے ہیں۔ اس سے پہلے تحریک انصاف کی قیادت فرح گوگی کو پہچاننے انکاری تھی۔ اچانک عمران خان فرح گوگی کے دفاع میں میدان میں اتر آئے۔ اب باقی قیادت جو پہلے انکاری تھی اب پریشان ہے کہ کس منہ سے دفاع کریں۔ مسلم لیگ ن نے عمران خان کے منفی پراپیگنڈے کا توڑ نکال لیا ہے۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور پارٹی کی نائب صدر مریم نواز نے عوام میں جا کر سازشی بیانیے کے مقابل کارکردگی پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 2018 میں جب مسلم لیگ ن نے حکومت چھوڑی تھی تو ترقی کی شرح لگ بھگ 6 فیصد پر تھی۔ پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا ملک بن چکا تھا۔ 2028 میں پاکستان کو دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں دیکھا جا رہا تھا۔ اب وہی تجربہ کار ٹٰیم بہترین کپتان شہباز شریف کی قیادت میں واپس آ چکی ہے۔ چین نے پچھلے چار برس میں سی پیک پر مزید سرمایہ کاری روک رکھی تھی۔ چین سی پیک کے دوسرے فیز کو شروع کرنے کا خواہش مند ہے اور 28 ارب ڈالر کے منصوبے شروع کرنا چاہ رہا ہے۔ 2014 میں بھی دھرنوں کی وجہ سے چینی صدر پاکستان نہیں آ سکے تھے۔ عمران خان صاحب پھر لانگ مارچ لانگ مارچ کھیلنا چاہتے ہیں۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام اس متوقع سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ خان صاحب نے آئی ایم ایف سے جوعہد شکنیاں کی ہیں۔ اس کی سزا بھی موجودہ حکومت کو مل سکتی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ برادر اسلامی ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تعاون پر آمادہ ہیں۔ سیاسی پنڈتوں کو یقین ہے کہ سازشی نظریے کے مقابلے میں کارکردگی کا مستقبل روشن ہے۔ وزیر اعظم مہنگائی کے مقابلے عوام کو ریلیف دینے کے لیے پُرعزم ہیں۔ کمزور معیشت کے ساتھ اگلا بجٹ دینا ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ شہباز شریف بھی دھن کے پکے ہیں۔ جب وہ ایک بار کسی کام کو کرنے کی ٹھان لیں تو پورا کر کے ہی دم لیتے ہیں۔ شہباز کی پرواز بطور وزیر اعلیٰ سب نے دیکھی ہے اب بطور وزیراعظم سب سے اونچی اڑان بھرنے کو تیار ہیں۔
تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

مصنف کے بارے میں