عارف علوی کے بعد عمر عطا؟

عارف علوی کے بعد عمر عطا؟

بظاہر ایک ع کے پیچھے ہمارے ملک کی عین غین ہونے جا رہی ہے، اسے بشری بیگم کی مبینہ توہم پرستی کہیں یا عمران خان کی سیاسی حکمت عملی، آئین کی تشریح کہیں یا موجودہ چیف جسٹس کی خوش قسمتی کہ تحریک انصاف کو عارف علوی کے بعد عمر عطا کی صورت میں ڈبل عین والا ایک اور صدارتی امیدوار مل گیا ہے؟ ع سے عمران خان ہو یا عثمان بزدار دونوں کے ملاپ نے پہلے بھی تحریک انصاف کے لئے”معجزات“ دکھائے ہیں، ایک ع والے عمران خان کو دو ع والے عارف علوی کے بعد دو ”ع“ والے عمر عطا بھی دریافت ہو گئے ہیں، اس بات کا ادراک بظاہر خود چیف جسٹس کو بھی ہے اور ریٹائرمنٹ سے چند ماہ پہلے عارف علوی کا جانشین بننے کی ایک کوشش میں کیا حرج ہے، اسی لئے تو قبل از ریٹائرمنٹ پنجاب میں عام انتخابات کی خاطر نوکری کی آخری سانس تک لڑا جا رہا ہے،”بھینس کی دم بے سبب نہیں ……“ سپریم کورٹ کے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کے حکم کو آخر اور کیسے سمجھا جائے، خاص کر جب چیف جسٹس عمر عطا خود فرماتے ہیں کہ آئین میں نگران حکومتوں کا مطلب پورے ملک میں ایک ہی دن نگران حکومتوں کے تحت انتخابات کرانے کی دلیل وزن رکھتی ہے اور اس پہلو کو کسی فریق نے فیصلے سے پہلے سنجیدگی سے عدالت کے سامنے نہیں رکھا تھا، اب چیف جسٹس کی ان ریمارکس کے پیچھے بھی ایک جال بْنا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت 14مئی کیخلاف نظر ثانی دائر کردے جسکو مسترد کر کے سپریم کورٹ کے 14 مئی کے فیصلے کو آئینی طور پر حتمی تحفظ مل جائے اور اسکی خلاف ورزی کی بنیاد پر وزیر اعظم یا پوری کابینہ کو (جو وزراء کابینہ سے الگ نہ ہوئے یا معافی نہ مانگی) توہینِ عدالت میں فارغ کرنے کی تلوار گردن پر گرا دی جائے جس کا مطلب پانچ سال کی نا اہلی بھی ہوتا ہے، چیف جسٹس عمر عطا کے بظاہر اس معصومانہ اعترافِ کوتاہی کے پیچھے حکومت کو بجا طور پرکچھ اور نظر آ رہا ہے، حکومت جانتی ہے کہ اگر نظر ثانی دائر کر دی گئی اور وہ مسترد ہو گئی تو پھر چیف جسٹس عمر عطا کی ستمبر میں ریٹائرمنٹ کے بعد نئے چیف جسٹس کے لئیے نظر ثانی شدہ فیصلے پر تیسری نظر ڈالنا آئینی طور پر انتہائی مشکل ہو جائے گا، جہاں تک الیکشن کمیشن کی نظر ثانی کا تعلق ہے تو اس میں بنیادی قانونی سوال الیکشن کمیشن کے آئینی اختیار کا ہے۔
اب 14 مئی کی تاریخ سر پر آ گئی ہے (چھ دن بعد) اور عدالتِ انصاف اور تحریک انصاف کے دونوں کپتان اچھی طرح جانتے ہیں کہ پنجاب میں الیکشن کے لئے 14مئی کی تاریخ دوسرے صوبوں کے حق پر ڈاکہ ہوگی، اس سب کے باوجود چیف جسٹس کی اپنے فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے اصرار، اس پر عمل درآمد کے لئے مزید کارروائی پر پراسرار خاموشی اور اس دوران چیف جسٹس عمر عطا کے حق میں عمران خان کا ملک گیر احتجاج کے پیچھے ایک نئی کہانی جنم لیتی دکھائی دیتی ہے، چیف جسٹس کے 14مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کے حکم پر عمل ہو نہ ہو عدالت انصاف نے تحریک انصاف کے لئے سیاسی فضا ہموار کر دی ہے، بظاہر چیف جسٹس اور ان کے دو ساتھی ججوں کے نزدیک سپریم کورٹ کا کام فیصلے دینا ہے اور اگر ان فیصلوں کا ”مقصد“ سیاسی طور پر حاصل ہو جائے تو ان پر عمل درآمد کرانے کا فائدہ؟ عزت اور وقار تو عدالت کا خاک میں ملتا ہے ریٹائر ہونے والے جج کو کیا فرق پڑتا ہے، اسکی پنشن اور مراعات میں کونسی کٹوتی ہو جاتی ہے، بلکہ ایوان انصاف کے ترازو کے کسی ایک پلڑے میں ریٹائر ہونے والا کوئی جج خود ہی بیٹھ جائے تو اسکے لئے ایوان صدار کی کرسی تو بنتی ہے ناں، ریٹائر ہونے والے ججوں پر عوامی عہدہ نہ رکھنے کی دو سال کی پابندی تو حکومتِ وقت کے ایک نوٹیفیکیشن کی مار ہوتی ہے، یہاں تو کھیل دو تہائی اکثریت کا کھیلا جا رہا ہے، ویسے بھی اس پابندی کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ریٹائر ہونے سے پہلے کچھ جرنیل بھرپور سیاست کرتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال تک وہ سیاست پر پابندی کا رونا روتے ہیں، کچھ ججوں کا بھی یہی حال ہے، اتنے دور کی سوچنے والے پنجابی منصفوں نے بہت پہلے سے تختِ پنجاب کو الٹنے کے لئے اپنا کام شروع کر دیا تھا جسکا ایک ثبوت آئین کی شق تریسٹھ اے کی ایسی روحانی تشریح تھی کہ جس کا آئین کے الفاظ بھی ساتھ نہیں دے رہے تھے، ایک مختصر حکم کے ذریعے منحرف اراکین کے ووٹ کے شمار کو بھی کو انکی پارلیمانی پارٹی کے فیصلے پر عمل سے مشروط کر دیا گیا، اس مختصر حکم کا تفصیلی فیصلہ کئی ماہ تک نہیں آیا کہ جس میں ایسا کرنے کی تفصیلی آئینی وجوہات کا جائزہ لیا جا سکتا، جب تک تفصیلی وجوہات آئی اس سے پہلے ہی تختِ پنجاب عدالتی فیصلے کے باعث الٹایا جا چکا تھا اور پھر پنجاب اسمبلی تحلیل کر دی گئی، اب ایک بار پھر ایک اور بادشاہانہ مختصر حکم کے ذریعے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کی ضد ہے، خیبر پختونخواہ میں 90دن میں الیکشن کرانے کی ”آئینی ذمے داری“ سے لاہوری ججوں کو کوئی غرض نہیں،4 اپریل کو جاری کئے گئے اس مختصر حکم کی بھی تفصیلی وجوہات آج تک سامنے نہیں آئی اور 14مئی کی تاریخ سر پر آ گئی ہے، مذکورہ حالات میں اب اگر تحریک انصاف اور عدالتِ انصاف مل کر ایک نئی وکلا تحریک چلانا چاہتے ہیں تو انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ قوم ایک اور افتخار محمد چودھری جیسے بدیانت اور سازشی کردار کی متحمل نہیں ہو سکتی، اسکو بھی عوامی مقبولیت کی غلط فہمی ہو گئی تھی جس باعث اس نے بعد از ریٹائرمنٹ ایک سیاسی جماعت بھی بنا لی تھی، اس سیاسی جماعت کا حشر دیکھ کراور جسٹس قاضی فائز عیسی کے چیف جسٹس بننے کے بعد ایسے ججوں اور انکے سابق ہینڈلروں کی واحد محفوظ پناہ گاہ آئینی استثنیٰ کی بلند فصیلوں کے پیچھے ایوان صدر ہی ہو سکتا ہے، یہ سب اسی صورت ممکن ہے کہ جب پنجاب میں یا تو قبل از ریٹائرمنٹ (چیف جسٹس اور صدر مملکت) الیکشن ہو جائیں یا پھر حکومت کو قبل از الیکشن نئے صدر کے انتخاب سے روکا جا سکے، اگر حکومت قبل از الیکشن نئے صدر کا انتخاب نہ کرنے پر راضی ہو جاتی ہے تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال 14 مئی کے الیکشن کی تاریخ پر الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواستوں میں لچک دکھا سکتے ہیں، آئین کے مطابق نئے صدر کا الیکشن 9ستمبر سے پہلے ساٹھ دن کے اندر ہو سکتا ہے اور تیس دن پہلے ہونا لازمی ہے، اسکا مطلب ہے کہ نیا صدارتی الیکشن 9 جولائی کے بعد اور9 اگست سے پہلے (لازمی) ہو سکتا ہے، کیا چیف جسٹس حکومت کو نو جولائی تک جانے دینگے؟ اور کیا چیف جسٹس 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کے حکم پر عملدرآمد نہ کرنے کا معاملہ کسی نہ کسی طریقے سے نو جولائی تک لے جا سکیں گے؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کمرہ عدالت میں اٹارنی جنرل کو یاد دلایا تھا کہ اس حکومت کی مدت بارہ اگست کو ختم ہو رہی ہے۔
صدارتی الیکشن میں قومی اور صوبائی اسمبلیاں ووٹ ڈالتی ہیں، ایک قانونی رائے ہے کہ دو صوبائی اسمبلیاں (پنجاب اور خیبر پختونخواہ) موجود نہیں تو صدارتی الیکشن نہیں ہو سکتا، جبکہ دوسری قانونی رائے ہے کہ صدارتی الیکشن میں واحد آئینی رکاوٹ صرف قومی اسمبلی (صفحہ 3پر بقیہ نمبر1)
کی عدم موجودگی ہے (تحلیل ہونے کے باعث) اور ایسے میں موجودہ صدر کام جاری رکھے گا، آئین میں کسی صوبائی اسمبلی کے نہ ہونے کے باعث صدارتی الیکشن کو روکنے کا نہیں کہا گیا، مگر قانونی رائے پر عدالتی فیصلے حاوی ہوتے ہیں چاہے وہ من پسند تین ججوں کے بنچ کی رائے ہی کیوں نہ ہو، تو جناب صدارتی الیکشن کا معاملہ بھی سپریم کورٹ میں ہی آنا ہے اور اگر پارلیمنٹ کا بنایا گیا قانون (بنچوں کی تشکیل کے لئے تین ججوں کی کمیٹی کا قیام اور نظر ثانی کی بجائے اپیل کا حق لارجر بنچ کے سامنے) آٹھ ججوں کے بنچ میں یوں ہی معطل رہا تو اْس معاملے پر بھی چیف جسٹس نے خود ہی سماعت کرنی ہے اور اپنے انہیں دو ساتھی ججوں کے ساتھ جو آجکل خود کو ہی سپریم کورٹ سمجھتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ ایک قتل کو چھپانے کے لئے اچھے بھلے انسان کو بہت سے قتل چھپ کر کرنے پڑتے ہیں، ججوں کو تو سرے عام عدالتی قتل کا لائسنس ملا ہوتا ہے انہوں نے تو چھری پھیرنے سے پہلے صرف تکبیر پڑنی ہوتی ہے، خون کی دھار نکل آئے تو کون پوچھتا ہے کہ چھری تیز تھی یا نہیں اور مرغ چوری کا تھا یا اپنا، اس سے پہلے کے آئین کی چْھری چلے اپنی جان بچانے کے لئے آئین پر چھری چلانے کی زندہ مثال ہمیں آج سپریم کورٹ کے فیصلوں میں نظر آ رہی ہے، عارف علوی کے دوسرے ع ع کی تاج پوشی کے لئے بنی گالہ کی عملیات اس ملک کے ساتھ عین غین تو کر ہی رہی ہیں مگر اس ع اور غ کے بعد جو ف ق ل م اور ن ہونا ہے اسکا اس بیچاری قوم کو کوئی اندازہ ہی نہیں۔
مطیع اللہ جان