بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا  متنازعہ فیصلہ ہندوؤں کے حق میں دیدیا

بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا  متنازعہ فیصلہ ہندوؤں کے حق میں دیدیا

نئی دہلی:بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی زمین ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو مندر تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا  متنازعہ فیصلہ ہندوؤں کے حق میں دیدیا  جس کے مطابق بابری مسجد کی جگہ ہندوؤں کو مشروط طور پر دی جائیگی،مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لئے متبادل زمین دی جائے اور زمین کا بٹوارہ نہیں کیا جائے گا،مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لئے 5ایکٹر زمین دی جائے گی جبکہ بابری مسجد کی زمین حکومت کے پاس رہے گی۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت 16 اکتوبر کو مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔چیف جسٹس رنجن گوگئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ آج اس طویل تنازع کا فیصلہ سنایا جا رہا ہے اور جسٹس نذیر اس بینچ میں واحد مسلمان جج ہیں۔پانچوں ججز نے شیعہ بورڈ کی درخواست متفقہ طور پر خارج کر دی ہے۔ پانچوں ججز نے شیعہ بورڈ کی درخواست متفقہ طور پر خارج کی۔

شیعہ بورڈ کی درخواست 1945 کے فیصلے پر دائر کی گئی تھی۔سپریم کورٹ نے نرموہی اکھاڑے کا دعویٰ بھی خارج کردیا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ نرموہی اکھاڑے کا دعویٰ غیر قانونی ہے۔چیف جسٹس رنجن گوگئی نے ریمارکس دیے کہ اثار قدیمہ کی رپورٹ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، مسجد خالی زمین پر تعمیر نہیں کرائی گئی تھی جبکہ بابری مسجد کی جگہ رام کی جنم بھومی ہے،مندر منہدم کرنے کے بھی کوئی ثبوت نہیں ملے،بابر مسجد میر باقر نے تعمیر کی تھی،بابری مسجد کی کوئی اسلامی تاریخ نہیں ملتی،مسجد کو شہید کرنا قانون کے خلاف ہے۔

بھارتی چیف جسٹس کے مطابق اے ایس آئی نے ثبوت بھی فراہم کیے اور مندر گراکر مسجد تعمیر کرنے کے ثبوت بھی نہیں ہے۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ عقیدے پر کوئی سوال نہیں ہوسکتا اور نہ عقیدے کی بنیاد پر کوئی ملکیت طے ہوگی،دونوں فریقین کو برابر کا ریلیف دیا جائے گا۔

مقامی خبر رساں ادارے کے مطابق فیصلہ آنے سے سے قبل ایودھیا اور پورے ملک میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو غلط قرار دیدیا، الہ آباد ہائیکورٹ کا زمین کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ غلط تھا،3ماہ میں بھارتی حکومت بورڈ تشکیل دیکر   سکیم تیار کرے۔

ایودھیا میں دفعہ 144 نافذ کرکے متنازع مقام سمیت اہم عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ہندو اور مسلم تنظیموں نے سب سے عدالتی فیصلے کا احترام کرنے کی اپیل کی ہے، پانچوں ججوں کی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا اور 8 وزر اعلیٰ نے عوام سے فیصلے کے بعد امن قائم رکھنے کی اپیل کی ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان بابری مسجد اور رام مندر کی زمین کا تنازع حل کرنے کے لیے ثالثی ٹیم تشکیل دی تھی۔


واضح رہے کہ بابری مسجد کے حوالے سے  مسلمانوں کا موقف ہے کہ یہ سال 1528 سے موجود مذکوہ مقام پر قائم ہے جب کہ  ہندوؤں کا موقف ہے کہ  یہ مندر صدیوں پہلے ممکنہ طور پر راجہ وکراما دتیا نے بنایا ہوگا جسے 1526 میں بابر نے یا پھر 17ویں صدی میں ممکنہ طور پر اورنگزیب نے گرا دیا تھا۔